سابق وزیر اعظم عمران خان نے 5 اکتوبر کو جیل میں اپنی 72 ویں سالگرہ منائی۔ اس دن کو پاکستانی عوام نے ملک گیر احتجاج کر کے مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کی۔ یہ 77 سالہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ جیل میں ہو اور اس کی جماعت کے کارکن اور پاکستان کے عوام اس کی کال پر اس طرح نکلے ہوں اور شہروں میں سڑکوں پر اس کی سالگرہ کے کیک کاٹے گئے ہوں۔
اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے کارکنوں نے بھی کسی حد تک اپنے لیڈر کے عشق میں مزاحمت کی تھی مگر عمران خان ذوالفقار علی بھٹو سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ بھٹو صاحب پھانسی چڑھ کر سیاسی تاریخ کا ایک اساطیری کردار بن گئے تھے مگر عمران خان جیتے جی ہی مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کر رہے ہیں جو آنے والے عہد میں سیاسیات کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ ہو گی۔
پچھلے دو سالوں سے ہماری ہئیت مقتدرہ نے عمران خان کی کردار کشی کے لیے غلیظ سے غلیظ حربہ آزما چکی ہے۔ عالم اسلام کی تاریخ کا سب سے گھٹیا ترین مقدمہ عدت میں نکاح کیس بھی بنا کر دیکھا مگر عمران خان کی ساکھ خراب نہیں کر سکے، کیونکہ یہ بھول گئے تھے کہ ساکھ تو سیاست دانوں کی خراب ہوتی ہے ہیرو کی نہیں۔ عمران خان قوم کا ہیرو ہے، کرکٹ کی دنیا کا ایک اساطیری کردار، ورلڈ کپ کا فاتح، ایک ورلڈ کلاس آل راؤنڈر، لاہور پشاور کراچی میں کینسر ہسپتال بنانے والا، میانوالی میں نمل یونیورسٹی بنانے والا۔
اکتوبر 2005 کے زلزلے میں کشمیر میں 10 ہزار عارضی گھر بنائے۔ یہ پاکستانی قوم نے دیکھا۔ کبھی اس نے بیرون ملک میں جائیداد نہیں بنائی، نہ پیسہ بنایا۔ ہر مقدمہ سے بری ہو رہا ہے۔ دس دنوں میں دو بار سزا سنائی گئی اور بڑی عدالت نے بری کر دیا۔ اب بھی ایک بے کار مقدمہ چل رہا ہے جسے اعلیٰ عدلیہ اڑا کر رکھ دے گی۔
الیکشن سے قبل اس کی جماعت کو ہرانے کے لیے الیکشن کمیشن اور قاضی القضاء نے کیا کچھ نہیں کیا؟ اس کی جماعت سے انتخابی نشان تک چھین لیا گیا، 8 فروری کی شام کے نتائج کو 9 فروری کی شام تک فارم 47 کے ذریعے کیسے بدلا گیا سب عوام نے دیکھا مگر جب سنگھاسن پر گھس بیٹھیے یہ سوچ رہے ہیں کہ اس قدر کرنے کے بعد بھی جنتا نہیں نکلے گی تو کیا کچھ ہئیت مقتدرہ کے کٹھ پتلی وزیر داخلہ نے نہیں کیا؟ کون سی رکاوٹ تھی جو سڑکوں پر نہیں تھی مگر اس کے باوجود جنتا نکل پڑی اور عوامی مزاحمت کی تاریخ رقم ہو گئی۔
لاہور، بہاولپور، میانوالی، فیصل آباد اور راولپنڈی اسلام آباد کی سڑکیں اس اتہاس کی گواہ بن گئی ہیں۔ پھر خیبر پختونخوا سے اٹھنے والا عوامی سیلابی ریلہ محسن نقوی کی ہر رکاوٹ کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ رہی بات خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی تو ایک کریڈٹ تو ان کو دینا پڑے گا کہ وہ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے ڈی چوک اسلام آباد پہنچ گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ لاپتہ ہو گئے، پھر ایک دن بعد اچانک خیبر پختونخوا اسمبلی پہنچ گئے، وہاں خطاب کیا۔
علی امین کے اس عمل کو تحریک انصاف کے کارکنوں میں ہرگز پذیرائی نہیں ملی مگر تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ علی امین گنڈا پور اس وقت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں، وہ ایک حد تک انقلابی رنگ اختیار کر سکتے ہیں، پورے انقلابی نہیں بن سکتے۔ ان کے عہدے کا تقاضا اور حلف ایک حد سے آگے نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
اب دیکھیں عمران خان اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مبینہ طور پر عمران خان علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی بہنوں کی ایک ملاقات کی خبریں بھی زیر بحث ہیں اور خیبر پختونخوا ہاؤس بیرسٹر گوہر کا جانا اور پھر صحافیوں سے بات کیے بغیر وہاں سے چلے جانا کسی ایسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پھر پیر کے روز عمران خان کے مقدمہ کی سماعت کا دو ہفتے کے لئے ملتوی ہو جانا بھی اہم ہے۔
اب عمران خان اور ہئیت مقتدرہ میں پھر کوئی بات چیت شروع ہو گئی ہے مگر ساتھ ہی ہئیت مقتدرہ کے کٹھ پتلی وزیر داخلہ نے خیبر پختونخوا ہاؤس کو سیل کر کے جو اوچھی حرکت کی کیا وہ اس نئی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے؟ اگلے چند روز میں یہ پتہ چل جائے گا، مگر حالیہ احتجاج نے یہ تو ثابت کر دیا کہ عوام لیڈر شپ سے آگے نکل چکی ہے اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاکستان میں احتجاج کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے بڑا لیڈر بن چکا ہے۔