کورونا سے دنیا کی معیشتیں تباہ ہو جائیں گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟

کورونا سے دنیا کی معیشتیں تباہ ہو جائیں گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟
دنیا کے لئے یہ بات بعید از قیاس تھی کہ ایک حقیر جرثومہ ان کی مستحکم معیشت، بڑے پیمانے پر استوار تجارتی تعلقات، نت نئی ایجادات، اور ترقی کی جستجو میں متحرک اور مگن انسانی زندگی کی کایا پلٹ دے گا۔ گویا ایسا لگتا ہے یہ سب آنکھ کے پلک جھپکنے میں ہوا ہو۔ اتنی تیزی سے سب کچھ بدل گیا۔ پورے کا پورا نظام جو برق رفتاری سے ایک ڈگر پہ گامزن تھا زچ ہو گیا۔ یہ مشکل کسی طبقے، فرقے یا ذات پات کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ہر ایک کا مقدر بنی۔ سب کو ایسے راستے پر ڈال دیا گیا ہے کہ جہاں منزل کا کوئی پتہ ہی نہیں۔

بات قیافہ شناسوں اور عارفوں کے گیان میں نہیں آتی۔ مفر ممکن نہیں، سکتہ کے عالم میں دنیا کے حواس باختہ ہیں۔ اور اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بنی نوع انسان کو کسی اور آفت یا جنگوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا لیکن سب سے بھاری نقصان جو انسانی آبادی کے لئے سم قاتل ثابت ہوا ہے وہ ان دیکھے جرثوموں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کبھی وائرس کی صورت میں تو کبھی بیکٹریا اور پیراسائیٹ کی صورت میں۔ دنیا میں دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں لیکن اموات کا تناسب ان جرثوموں سے ہلاک ہونے والوں سے کم ہے۔

اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں طاعون 5 کروڑ افراد یعنی تقریباً دنیا کی نصف آبادی چاٹ گیا۔ 20ویں صدی میں چیچک تقریباً 30 کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنا گیا۔ 1918 میں انفلوئنزا سے 5 سے 10 کروڑ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ 1928 میں پنسلین کی دریافت سے لاکھوں جانیں بچیں۔ اس کے بعد بھی بہت سی ایسی وبائیں آئیں جنہوں نے انسانی جانیں ضائع کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔



سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی انسانی جانوں کے زیاں کے بعد بھی دنیا نے صحت عامہ پر کام کیوں نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دو عالمی جنگوں سے سبق نہیں سیکھا۔ ہم ایک اور جنگ کی طرف گامزن ہوئے جسے عرف عام میں سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ خفیہ بلاک بنائے گئے، تمام تر ذہنی، افرادی اور مالی قوت ان سازشوں میں صرف ہونی لگی۔ دنیا کی فراست میں یہ بات کبھی آئی ہی نہیں کہ انسانی اموات کا تناسب تو ان دیکھے دشمن کی وجہ سے زیادہ ہوا۔ یہ ہم کس سرد جنگ کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہمیں تو متحد ہو کر ان دیکھے دشمن کے ساتھ لڑنا ہے۔ لیکن دنیا نے اپنی روش نہیں بدلی۔

اب کی صورت حال یہ ہے کہ عالمی ادارے آکسفم نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ کورنا وائرس کی وجہ سے معیشت پہ گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں جس سے عالمی غربت میں نصف ارب تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں طبی بحران سے کہیں زیادہ معاشی بحران پیدا ہوگا جس سے نمٹنے کے لئے وقت لگے گا۔ کوئی شک نہیں کہ دنیا کے غیر سنجیدہ رویے نے اس حقیر سے جرثومے کو بے لگام کر دیا اور یہ بے ہنگم ہوتا گیا اور عالمی معیشت کو بھی لے بیٹھا اور پوری شد و مد سے انسانی جانوں پر بھی وار کرتا جا رہا ہے۔ آج دنیا کے ممالک کی صورتحال ناقابلِ بیان ہو چکی ہے۔

سمجھ نہیں آتا انسانی جانیں بچائیں یا معیشت، کیونکہ لاک ڈاؤن سے پاکستان سمیت دنیا کے معاشی نظام پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹا لینا کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث ایسا اقتصادی بحران پیدا ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کر نے ہوں گے۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ وبا اب تک 10 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے۔

کورونا نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت بھی بہت متا ثر کیا ہے۔ پاکستان جو اقتصادی طور پر پہلے سے ہی لاغر ہے اس وبا سے مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ پا کستان کی پچیس فیصد سے زائد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ مسلسل لاک ڈاؤن نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ لاک ڈاؤن سے لوگوں کی زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھوک موت سے بھی تلخ ہے۔ اب حکومت کی طرف سے ریلیف مل رہا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت کے پیکج سے اس وقت مستحقین مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ مستحسن عمل ہے۔ لیکن یہ رسائی سب تک ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر مستحق تک اس کی رسائی آسان بنائے تاکہ کورونا کی وبا کے ساتھ ساتھ بھوک جیسی وبا سے بھی لڑا جا سکے۔