بے قصور شہری کو لاپتہ کر کے پورے خاندان کو اجتماعی سزا نہ دیں؛ ایک بیٹی کی اپیل

بے قصور شہری کو لاپتہ کر کے پورے خاندان کو اجتماعی سزا نہ دیں؛ ایک بیٹی کی اپیل
10 اپریل سے پہلے ہماری زندگی معمول پر چل رہی تھی جس طرح پاکستان میں مڈل کلاس خاندانوں کی زندگیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑا بنا کر منانا، چھوٹی سی دنیا میں بڑے بڑے خواب دیکھنا، ہنسی خوشی سے رہنا، دنیا کے جنگ و جدل سے دور کراچی جیسے گنجان آبادی والے شہر میں تھوڑی سی روشنی ہم پر بھی مہربان تھی۔ صبح اٹھتے ہوئے والد کا چہرہ دیکھنا، ان کے ساتھ شاپنگ پر جانا، کتابیں کپڑے خریدنے اور دیگر چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بازار جانا، والد کے ساتھ چائے پر بیٹھ کر گھنٹوں گفتگو کرنا؛ یہ ہماری روشن کائنات تھی۔

میں نے اپنے والد کے منہ سے کبھی بھی سیاسی باتیں نہیں سنی تھیں، نہ انہیں کبھی ٹی وی پر نیوز سنتے دیکھا تھا، نہ وہ کبھی ہم سے کوئی اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔

10 اپریل 2021 کی رات بھی معمول کی انہی راتوں جیسی ایک رات تھی۔ ہم اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے کہ دروازے پر پولیس کے سپاہیوں اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا تھا۔ وہ میرے والد عبدالحمید زہری کو گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم چیختے رہے اور پوچھتے رہے کہ کہاں لے جا رہے ہو میرے بابا کو اور وہ بار بار ہم سے کہہ رہے تھے آپ کے بابا سے تفتیش کر کے انہیں چھوڑ دیں گے۔ بلڈنگ کے نیچے سندھ پولیس کی گاڑیاں اور نفری صاف نظر آ رہی تھی۔ بلڈنگ میں موجود ہمارے پڑوسی بھی اس بربریت کے گواہ تھے اور تب سے لے کر اب تک ہم نے سکون سے اپنے بستر پر نیند پوری نہیں کی اور دھرنوں، احتجاجوں۔ مظاہروں میں زندگی گزر رہی ہے۔

اٹھانے والوں نے دوبارہ ہم کو بتایا تک نہیں کہ میرے والد کا جرم کیا تھا، اسے کہاں اور کس جرم کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ تب سے لے کر اب تک ہماری خوشیاں، ہماری عیدیں، مذہبی تہوار سب کچھ ہم سے چھین لیا گیا۔ ہماری پڑھائی متاثر ہوئی اور والد کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ہم یتیموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ کمیشن میں جاتے ہیں یا جی ٹی آئی اے کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ ہم سے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں جیسے ہم ہی مجرم ہیں۔ ہمارا جرم کیا ہے، یہی کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں؟ اگر یہ جرم ہے تو یہ جرم ایک مخصوص قومیت پر کیوں لاگو ہے؟ ہم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو حب الوطنی کا درس کیسے پڑھائیں گے؟ جبکہ ان کے والد کو گزشتہ 2 سال سے ایک نامعلوم جگہ پر رکھ کر بغیر کسی مقدمے کے اہلخانہ کو بے خبر رکھ کر ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے متعلق وہ ہم سے سوال نہیں کریں گے؟ ریاستیں ایسے چلتی ہیں کہ اپنے ہی شہریوں کو بغیر وارنٹ، ایف آئی آر کے سالوں سال لاپتہ کر کے ان کے اہلخانہ کو بے خبر رکھا جائے؟ ایسے اقدامات سے آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہوتی ہے یا سماج اور معاشرے میں اشتعال اور تفریق کا سبب بنتی ہے؟

ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب روزانہ ہم پریس کلبوں کے سامنے اپنے والد کی تصویر اٹھائے ان کی جبری گمشدگی پر احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں ہمارے والد سے ایسے الگ کیا جائے گا جیسے وہ کبھی وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ والد کی جبری گمشدگی کے بعد سے ہمیں پتا ہے کہ ہماری والدہ روز بیماریوں سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ ہم سے چھپاتی ہیں تا کہ ہم مزید پریشان نہ ہوں۔ کل کلاں اگر ہماری والدہ کو کچھ ہو گیا تو اس ملک میں کیسے زندگی کریں گے؟

کبھی کبھی سوچتی ہوں لوگوں کو لاپتہ کرنے والوں کے اپنے اہلخانہ یا بیوی بچے نہیں ہوں گے؟ اگر ہوتے تو وہ کسی دوسرے خاندان کے ساتھ اس طرح کا جبر نہیں کرتے۔ اس طرح کا رویہ نہیں اپناتے۔ پریس کلبز کے سامنے ہم احتجاج کے لیے جاتے ہیں تو میڈیا کے کیمرے ہم سے ایسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے ہم کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق ہیں اور کبھی کبھی ہمیں خود پر ہی شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی دوسرے سیارے کے لوگ تو نہیں ہیں۔

ہمارے والد نے ہم سے کہا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ہر انسان دوسرے انسان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ اب میں اپنے والد کو ایک بار مل کر یہ بتانا چاہتی ہوں کہ بابا آپ غلط تھے، ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی بس اپنے آپ سے ہی واقف ہے۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے، اس سے کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ پریس کلبز کے سامنے جب ہم احتجاج پر بیٹھتے ہیں تو لوگ گزرتے ہوئے ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہم کوئی خانہ بدوش ہیں جو اپنے قافلے سے بچھڑ گئے ہیں۔ اگر سچ کہوں تو لوگوں کی نظریں چبھتی ہیں۔

ہم حکمرانوں، مقتدرہ اور اس ملک کو چلانے والے طاقتور طبقوں سے نوکری کا مطالبہ نہیں کر رہے، ان سے مراعات نہیں مانگ رہے۔ بس یہ عرض کر رہے ہیں کہ جو ہمارا اپنا ہے اس کو ہم سے مت چھینیں۔ ہمیں ہمارا والا واپس دے دیں۔ اپنے والد کے ساتھ دنیا کے کسی اور کونے میں ہنسی خوشی رہ لیں گے اور دوبارہ آپ کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ آپ کا نام بھی نہیں لیں گے۔ یہ کائنات بہت بڑی ہے، کسی نہ کسی کونے میں ہمیں جگہ مل ہی جائے گی۔

میں اس ملک کے حکمرانوں، اپوزیشن، عدلیہ اور میڈیا سے دست بستہ اپیل کرتی ہوں کہ میرے والد عبدالحمید زہری کو بازیاب کرا کے ہمیں ہماری خوشیاں واپس لوٹا دی جائیں۔ والد کے بغیر یہ زندگی بہت تکلیف دہ ہے۔ اس تکلیف کا مکمل اظہار شاید لفظوں میں بیان نہ ہو سکے۔ ساتھ میں یہ بھی اپیل کروں گی کہ جبری گمشدگیوں کے اس خلافِ انسانیت فعل کو اب رک جانا چاہئیے۔ پاکستان میں ہزاروں خاندان ان جبری گمشدگیوں کی وجہ سے انتہائی کرب میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس عمل کو جتنی جلدی بند کیا جائے اتنا ہی اس ملک کے مفاد میں ہوگا۔ اگر کوئی جرم کرے تو اسے قانون کے مطابق ہی سزا دی جائے، جبری طور پر گمشدہ کر کے یہ اجتماعی سزا کا سلسلہ رک جانا چاہئیے۔

سعیدہ حمید بلوچ لاپتہ شہری عبدالحمید زہری کی بیٹی ہیں۔