ریڈ زون میں اپنے پرانے اور شاید کچھ نئے مطالبات لے کر غالباً وہی پرانے اوسطاً کچھ نئے چہرے بیس سے زائد دنوں سے کیمپ لگا کے اقتدار شہنشاؤں سے مطالبات منوانے کے لیے پُرامید ہیں۔
حکمرانوں کی دیوار سے کوئی ایک عام سا مشیر ان بیس دنوں میں چھلانگ لگا کر اس پار نہیں آ پایا اور مذاکرات کے لیے بلوچ وزیراعلیٰ دور کی خواہش، تمنّا اور شے لگتی ہے۔
اکثریت کا گِلہ اکثر اوقات بلوچ سے نہیں ہوتا یا انتہائی کم ہی ہوتا ہے۔ وجوہات سی بہت ہو سکتی ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی طاقتیں یا طاقت کے پرستاروں کی فہرست میں بلوچ کا بھاگنا بھی ہے۔
قوم پرست حلقوں کے معتبر آج تک اپنی بیٹیوں، ماؤں کے دربار کے آس پاس بھی نہیں گئے، ایک دو سماجی ویب سائیٹ پر بیانات کے علاوہ۔ لواحقین میں سے ایک سائرہ بلوچ ہیں جن کے دو بھائی جبری لاپتہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اختر مینگل نے مجھے صاف صاف جواب دیا ہے کہ اگر میں کچھ کر پاتا تو اپنے بھائی اسد مینگل کے لیے کرتا۔ البتہ شازین بگٹی نے یقین دہانی کرائی تھی۔
اب المیہ یہ ہے کہ جو ووٹ لے کر لاپتہ افراد کا مسئلہ اتحادی بننے کی اپنی حرفِ آخر نکات بنا دیتا ہے عمران خان اور شہباز شریف دونوں حکومتوں میں ہم نے دیکھا وہی شخص جناب اختر مینگل بے بسی کے گُن بھی گاتا ہے۔
اس میں دو رخ کیوں بنائے گئے ہیں؟ اگر مسئلہ کے لیے بے بسی ہے تو حکومت کے اتحادی بننے کا شوق کیوں پورا کرتے ہیں۔ اگر یہ تمنا ابدی ہے تو لاپتہ افراد کے مسئلے کو سائیڈ لائن کرکے وزارت کی موجیں لیں۔
ایک عام بلوچ آج ان سے اس لیے شکوہ کرتا ہے یا شاید امید رکھتا ہے کیونکہ اسی نے امید کی ڈھارس باندھی ہے۔ اسی نے یقین دہانی کرائی ہے اور آج مرکز و صوبے میں حکومتی اتحادی بھی ہیں۔
لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ قوم پرستی کی فہرست میں جو نام بھی ہے وہ آج تک اپوزیشن و حکومت دونوں اطراف کی شخصیات اپنی ماؤں بہنوں سے یکجہتی کرنے نہیں گئے اور ہماری امید دوسروں سے ہے۔
رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ حکومت پر تند وتیز الفاظ برساتے ہیں تو ساتھ میں بیٹھے وزیر تعلیم نصر اللہ زیرے فرماتے ہیں کہ جناب آپ ہمارے اتحادی کیساتھ ساتھ ہم سے بھی زیادہ وزیراعلی کے قریب ہیں۔
موصوف کا تعلق بھی بی این پی مینگل سے ہے۔ آج تک نہ خود لواحقین کے پاس تشریف آوری کر چکے ہیں اور نہ ہی وزیراعلی کو ملنے پر زور دے رہے ہیں۔
لواحقین کے مطالبات وہی پرانے، لواحقین پرانے اور جبری گمشدہ لوگ بھی پرانے۔ ہر حکومت وحکومتی اتحادی قوم پرست مرکز و صوبے میں ہمہ وقت اس مسئلے کو حل کرانے کی سینکڑوں بار یقین دہانی کروا چکے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے جو دس سال پہلے تھا۔
البتہ حکومت ان کے اتحادیوں کے چہرے وقتاً فوقتاً عدم اعتماد و جمہوری گرفت میں آئے ہیں لیکن بلوچ ماؤں کے چہرے بھی وہی، مطالبات بھی وہی اور طریقہِ مزاحمت بھی وہی۔
کسی درد دل رکھنے والے انسان کو کیا یہ چہرے اور ان کے درد، کرب و آنسو یاد نہیں آتے؟ کسی کو بھی نہیں، کبھی بھی نہیں؟
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔