ریویو ایکٹ کا فیصلہ سنانے کےلئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا، ن لیگ کا ردعمل

ن لیگی رہنما نے ٹویٹ میں لکھا کہ جو بینچ فیصلہ کرے وہی ریویو سنے یہ اصول انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ بینچز کی تشکیل کے لیے فرد واحد کے اختیار نے عدل کو بارہا پامال کیا۔

ریویو ایکٹ کا فیصلہ سنانے کےلئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا، ن لیگ کا ردعمل

سپریم کورٹ کے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے پر پاکستان مسلم لیگ ن کےرہنماؤ ں کا ردعمل سامنے آگیا۔ سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ ریویو ایکٹ کا محفوظ فیصلہ سنانے کے لئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا۔

ن لیگی سینیٹر عرفان صدیقی  نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے  53 دن انتظار کیا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے۔

سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے "واردات" بن جائیں تو پاکستانی عدلیہ کا عالمی انڈیکس میں 130 واں نمبر حیرت کی بات نہیں۔

فیصلے پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین میں طریقہ کار واضح ہے کہ اداروں نے کیسے چلنا ہے۔ یہ قانون بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا پرانا مطالبہ تھا۔ تاثر جاتا ہے کہ پارلیمان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھایا گیا۔ اس مداخلت سے ادارے مضبوط نہیں کمزور ہوں گے۔ پارلیمان کے اختیار میں بار بار مداخلت اچھی روایت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہا نوازشریف کے کیس میں اس فیصلے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سمجھ سے بالاتر ہے جس ڈاکٹر سے شفا نہیں مل رہی کہا جارہا ہے دوسرا آپریشن بھی اسی سے کرایا جائے۔

سابق وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود نوازشریف کو جو ریلیف ملا تھا وہ قائم ہے۔اس فیصلے کے کوئی اثرات نہیں ہیں۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ دوبارہ مکمل ہوکران چیزوں کا جائزہ لے گی اور سپریم کورٹ کے اس اختیار کو ختم کرے گی۔

سینیٹ میں نے صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ریویواینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دینے کے فیصلےسے پریشانی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ اپنی سیاسی و قانونی حکمت عملی طے کرے گی۔ قانونی ماہرین سے اس معاملے پر مشاورت کریں گے۔نوازشریف کی واپسی سے متعلق پارٹی باہمی مشاورت سے فیصلہ کرے گی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نےسپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اس میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔

سعد رفیق نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ جو بینچ فیصلہ کرے وہی ریویو سنے یہ اصول انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ بینچز کی تشکیل کے لیے فرد واحد کے اختیار نے عدل کو بارہا پامال کیا۔آج کے فیصلہ کا ریویو آئندہ پارلیمنٹ ہی میں ہوگا۔

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کے کیس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آئین میں طریقہ کار واضح ہے کہ اداروں نے کیسے چلنا ہے۔ عدالت کا کام مقدمات کا فیصلہ کرنا اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ پارلیمان کے اختیار میں عدالت کی بار بار مداخلت اچھی روایت نہیں۔ اس سے ادارے مضبوط نہیں کمزور ہوں گے۔