20 جولائی کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کی جانب سے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق بمقابلہ نیب کیس میں 17 مارچ 2020 کو دیے گئے اپنے فیصلے، جس میں مسلم لیگ نواز کے دونوں رہنماؤں کو ضمانت پر رہائی دی گئی تھی، اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس مقبول باقر ہیں جب کہ ان کے ساتھ جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
تفصیلی فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے اور اس میں انہوں نے جہاں نیب کی کارروائی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، وہیں انہوں نے پاکستان میں احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی روش کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جسٹس مقبول باقر کے تحریر کردہ اِس تفصیلی فیصلہ کر پڑھ کر سمجھ آتا ہے کہ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کے دوران کیوں ریمارکس دیے تھے کہ اِس مُلک میں احتساب کے نام پر نظام کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور مُلک میں تباہی لائی گئی ہے۔
اس حوالے سے چند اہم ترین ریمارکس جو اس تفصیلی فیصلے میں دیے گئے ہیں، یہ نیب اور حکومت دونوں ہی کے لئے سبکی کا باعث ہیں۔
نیب کی خواجہ برادران کے خلاف کارروائی کے حوالے سے جسٹس مقبول باقر لکھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے جو حقائق اور حالات موجود ہیں، ان کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اب تک ایک راز ہی ہے کہ نیب نے کس بنا پر مقدمہ بنایا ہے۔ ماسوائے قیصر امین بٹ نامی ایک وعدہ معاف گواہ کے، نیب کے پاس کوئی ایک ثبوت بھی موجود نہیں جو یہ ظاہر کر سکے کہ ان دونوں ملزمان کے پاس کمپنی کی منیجمنٹ کے کوئی اختیارات تھے۔ قیصر امین بٹ نے بھی اپنا بیان 14 نومبر 2018 کو ریکارڈ کروایا۔ یہاں تک کہ چیئرمین نیب نے بھی 15 دسمبر 2018 کو دیے گئے اپنے حکم میں قیصر امین بٹ سے معافی مانگتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ نیب کے پاس ان دونوں درخواست گزاروں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود نیب نے ان دونوں کے خلاف کارروائی کا آغاز مارچ 2018 میں ہی کر دیا تھا اور انہیں پہلا نوٹس برائے طلبی 20 مارچ 2018 کو جاری کر دیا گیا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب کے تفتیشیوں کی جانب سے درخواست گزاروں یعنی سعد رفیق اور سلمان رفیق سے ایک بھی سوال کمپنی کی جانب سے گاہکوں کو پلاٹوں کی خرید و فروخت یا الاٹمنٹ کے حوالے سے نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی سخت تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درخواست گزاروں سے پوچھے گئے سوالات اس قدر غیر متعلق اور مبہم ہیں کہ انہی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ نیب کو اندازہ ہی نہیں کہ اس کا کیس ہے کیا۔ یہاں تک کہ درخواست گزاروں کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات میں سےبھی نیب کوئی غلطی ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہے۔ اسی طرح دونوں درخواست گزاروں کے نیب کے ساتھ برتاؤ پر بھی نیب کوئی خاطر خواہ اعتراض نہیں اٹھا سکا۔ کسی ایک بھی نوٹس میں نیب یہ نہیں ثابت کر سکا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 کی کوئی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور کسی بھی صورت میں جو معاملات نیب کی جانب سے اٹھائے گئے وہ نجی نوعیت کے تھے اور ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ درخواست گزاروں کے سرکاری عہدے کا ان سول نوعیت کے کیسز سے تعلق ہو۔ یعنی سُپریم کورٹ قرار دے رہا ہے کہ نیب نے خواجہ برادران کے نجی اور سول نوعیت کے معاملات کر کرپشن کا کیس بنا دیا۔
احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کی روش کو نشانہ بناتے ہوئے جسٹس مقبول باقر اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ چونکہ یہ قوانین صرف لوگوں کے بازو مروڑ کر ان کو دباؤ میں لا کر ان کو خاموش کروانے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں، بجائے ملکی اداروں کو کرپشن اور دیگر علتوں سے پاک کرنے کے، یہ صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں، اور یہاں مقصد محض یہ ہے کہ یہ یا تو خاموش ہو جائیں، یا پھر حکومت کے سامنے سر تشلیم خم کر دیں یا پھر کم از کم کچھ عرصے کے لئے سیاسی منظر نامے سے غائب رہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ قوانین سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سیاسی بونوں کو ‘select’ کیا جاتا ہے، ان کے سیاسی کریئر کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں طاقتور عہدے عطا کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جرائم پیشہ افراد کو اس ملک میں مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے اور اس کے نتائج سب کو معلوم ہی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر کہتے ہیں کہ ہم اس نہج پر آج اس لئے پہنچے ہیں کہ ہمارے ملک میں بار بار غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے آئینی مداخلتیں ہوتی رہی ہیں۔ ملک کو بنے ہوئے 72 سال ہو چکے ہیں، اور آئین کو وجود میں آئے بھی 47 سال گزر گئے لیکن ہم آج تک اس کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں کر سکے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے تو اس کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف کیا ہے۔ اس ملک کے شہریوں کے آئین میں درج حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے کوئی کوشش کی گئی، اسے پوری قوت سے دبایا گیا۔
مزید برآں، جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ان حالات کو مزید خراب مقامی حکومتوں کا موجود نہ ہونا اور ان کی موجودگی کی صورت میں بھی ان تک اختیارات کا منتقل نہ ہونا کر دیتا ہے کیونکہ یہ عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی میں ایک رکاوٹ ہے اور جمہوریت کی اصل روض کے منافی بھی۔
جسٹس مقبول باقر نے لکھا ہے کہ ریاست کے کسی بھی شہری کے آئینی حقوق اگر سلب کیے جاتے ہیں تو اس کی کوئی قانونی اور مناسب وجہ ہونی چاہیے اور اس کی ضرورت پیش آنے پر ہی ایسا کیا جانا ممکن ہے۔ کسی بھی ملزم کو ضمانت دی جائے یا نہ دی جائے، اس کا فیصلہ کرتے وقت یہ ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ ضمانت نہ دینے کا مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ملزم کی عدالت میں حاضری یقینی بنائے جائے۔ اس کا مقصد نہ تو اس کو سزا دینا ہے اور نہ ہی ضمانت پر رہائی کسی خدشے کی بنیاد پر روکی جا سکتی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ نیب کہیں یہ ثابت نہیں کر سکا کہ سعد رفیق اور سلمان رفیق اس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تھے، لہٰذا ان کو ضمانت پر رہائی نہ دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں۔
فیصلہ تحریر کرنے والے جسٹس مقبول باقر کر مُختصر تعارف بھی قائرین کی دلچسپی کے لیے پیش کرنا چاہوں گا۔ جسٹس مقبول باقر کو سُپریم کورٹ میں ایک ملنگ جج کے طور پر جانا چاہتا ہے جو بہت کم گُھلتے ملتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر سُپریم کورٹ کے دیگر ججز کی طرح طاقتور وفاق نہیں بلکہ صوبائی خودمختاری کے حامی اقلیتی آواز بھی ہیں۔ کراچی میں ایک خودکش حملہ کا سامنا کر چُکے جسٹس مقبول باقر سے با اثر حلقے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر اُن تین ججز میں شامل تھے جنہوں نے فُل کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر بھیجنے سے اختلاف کیا تھا۔
جسٹس مقبول باقر اپنے فیصلے میں جان سٹوئرٹ مل کو قوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ایک ریاست جو اپنے آدمیوں کو بونے بناتی ہو، تاکہ وہ اس کے ہاتھوں میں، اچھے مقاصد ہی کے لئے سہی، آلہ کار بنے رہیں ۔۔۔ بعد میں جانے گی کہ چھوٹے آدمیوں سے کوئی عظیم کام نہیں لیا جا سکتا‘‘۔