ساتھی صحافی حسنات ملک کو لے کر سپریم کورٹ پہنچا تو بالکل احساس نہیں تھا آج سپریم کورٹ میں ایک ایسی تاریخی سماعت کا مشاہدہ کروں گا جس میں بینچ کے ججز آپس میں الجھ پڑیں گے۔ سپریم کورٹ کے داخلی احاطے میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان دو موٹی موٹی فائلیں لے کر کھڑے مطالعہ میں مصروف تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ آج میری توہین عدالت کیس کی سماعت بھی ہے تو پولیس رپورٹ دیکھ رہا ہوں۔ مطیع اللہ جان نے انکشاف کیا کہ پولیس رپورٹ میں سی سی ٹی وی میں واضح طور پر نظر آنے والے اغواکندگان کے چہروں کا ریکارڈ دینے سے نادرا نے معذرت کر لی ہے۔ دلچسپی کی بات ہے مطیع اللہ جان پر جن ججز کی مبینہ توہین کا سوموٹو کیس تھا، پہلے مطیع بھائی نے ان کی سماعت کو رپورٹ کرنا تھا اور پھر ان کی توہین کے کیس میں اسی کورٹ روم نمبر ون میں پیش بھی ہونا تھا۔
10 بج کر 26 منٹ پر کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو چند منٹ بعد 11 بج کر 2 منٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ کمرہ عدالت میں آ گئے۔ 11 بج کر 10 منٹ پر کورٹ آ گئی کی آواز لگی اور دس معزز جج صاحبان اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کل سے جاری اپنے دلائل کو آگے بڑھانے کے لئے روسٹرم پر آ گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مسز سرینا عیسیٰ نے اعتراض کیا کہ FBR کے نوٹسز میں ان کو قانون کے مطابق جواب کے لئے ملنے والا وقت بھی نہیں دیا گیا اور ایسا سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ہوا۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ اگر قانون میں کوئی وقت طے بھی ہے تو وہ حتمی نہیں ہے سپریم کورٹ خود سے بھی طے کر سکتی ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ کیونکہ اس کیس میں مسئلہ ایک جج کی ذات کا تھا تو سپریم کورٹ کی ساکھ کا معاملہ تھا اور اس لئے سپریم کورٹ نے جلدی سے نمٹانے کے لئے FBR کی تحقیقات کی مدت طے کر دی۔
عامر رحمان کا مزید کہنا تھا کہ FBR کا دائرہ کار ہے کہ وہ کسی کی بھی جائیدادوں، آمدن اور گوشواروں کی تحقیقات کر سکے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے FBR کو مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس امور کی تحقیقات کا حکم دے کر ان کے حقوق کو متاثر نہیں کیا اور نہ ہی اس کا ان کے قانونی دفاع پر کوئی منفی اثر پڑا ہے۔ اس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں نکالیں اور باری باری پڑھنا شروع کر دیں۔
عامر رحمان نے پہلی کاپی پڑھنے میں قریباً پندرہ منٹ لیے تو درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بینچ سے استدعا کی کہ مسٹر عامر رحمان جو کر رہے ہیں وہ filibuster کی عمدہ ترین مثال ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اصطلاح فلی بسٹر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے معنی ہیں وقت ضائع کرنے کے لئے لمبی لمبی تقریریں کرو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کی درخواستیں تو ہماری تھیں، حکومت نے تو نظر ثانی کی درخواست دائر ہی نہیں کی تھی تو پھر یہ کس بات کے اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم نے نظر ثانی کی اپیل اس عدالت کے فیصلے پر دائر کی ہے اور اس عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے فیصلہ میں کوئی غلطی ہوئی ہے یا نہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کی طرف دیکھ کر کہا یہ تو وقت ضائع کرنے کے لئے فیصلوں کا کوما اور فل سٹاپ تک پڑھ رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی بات مکمل کر کے واپس نشست پر بیٹھے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے تلخی سے کہا کہ میرے پورے قانونی کریئر میں میرے کنڈکٹ پر آج تک کسی نے بات نہیں کی لیکن آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کر دی۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے بارے میں بات کرنا جائز نہیں تھا۔ فل کورٹ کے سربراہ کے بالکل دائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک نے مداخلت کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ہدایت کی کہ آپ اچھے انسان ہیں دلائل پر توجہ دیں کسی کی ذات پر بات مت کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے انداز کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں کیونکہ آپ بہت اہم قانونی دلائل دے رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب تک سماعت میں جو دوسری طرف کے دلائل تھے ان کا کوئی قانونی سر پیر نہیں تھا، صرف جذباتی باتیں کی گئیں۔ جسٹس مقبول باقر نے اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ نے ہمیں ایک کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور باقی کیسز کے فیصلے آپ نے ہمارے سامنے رکھے ہوئے ہیں تو ہم خود اب پڑھ لیں گے تاکہ عدالت کا وقت بچ سکے اور ہم جلد فیصلہ دے سکیں۔ جسٹس مقبول باقر خاموش ہوئے تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری اپنے ساتھی جج کی بات کی نفی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، مسٹر عامر رحمان آپ اپنے دلائل کا پورا وقت لیں۔ ہمیں آپ کی معاونت درکار ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے دوبارہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے جو وقت استعمال ہوتا رہا وہ قانونی دلائل کی جگہ دوسری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے ایک اور فیصلہ سامنے رکھ کر پیشکش کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں صرف کیس سے متعلق اس فیصلہ کے پیراگراف کا نمبر بتا دیتا ہوں جو بینچ نوٹ کر لے لیکن جسٹس منیب اختر نے ان کی پیشکش رد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں آپ کو سننا چاہتا ہوں، آپ فیصلہ پڑھیے۔ اس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وہ فیصلہ بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل انتہائی دھیمی آواز میں بہت ہی آہستہ آہستہ فیصلوں کے جملے پڑھ رہے تھے اور کمرہ عدالت میں کم از کم صحافیوں کو ان کی آواز بہت مدھم ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں آ رہی تھی جب کہ معزز بینچ کے بھی ججز کی اکثریت ان کی جمع کروائی ہوئی فیصلے کی کاپی کا مطالعہ نہیں کر رہی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منظور ملک اور جسٹس منیب اختر فیصلہ نہیں پڑھ رہے تھے اور صرف ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف دیکھ رہے تھے جب کہ جسٹس قاضی محمد امین احمد بھی کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کبھی کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں اور دیگر افراد کو نوٹ کر رہے تھے۔ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قرآن پاک کا مطالعہ کر رہے تھے جب کہ مسز سرینا عیسیٰ اون سے کچھ بن رہی تھیں، شاید اپنے نواسے نواسیوں کے لئے کچھ بنا رہی تھیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دس سے پندرہ منٹ لگا کر دوسرا فیصلہ سنانا ختم کیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ مسٹر عامر رحمان اگر سپریم کورٹ حکم نہ دیتی تو کیا FBR کارروائی کرتی؟ کم از کم ہمیں نہیں معلوم یا شاید ایسا نہ ہوتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سرکاری وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ کے فیصلے کا مسز سرینا عیسیٰ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا کی دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ اس کا کوئی منفی اثر درخواستگزاروں پر نہیں پڑا جب کہ FBR نے تو کارروائی شروع ہی سپریم کورٹ کے حکم پر کی جو عام حالات میں خود سے کبھی یہ کارروائی نہ کرتے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کے خلاف انکوائری کا حکم کسی بھی ادارہ کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل دے سکتی ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہوا ہے کہ یہ اختیار اس عدالت نے استعمال کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ کی طرف نام لیے بغیر اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا یہ انصاف ہوگا کہ کیس مسٹر اے کے خلاف ہو اور فیصلہ مس بی کے خلاف دے دیا جائے جو فریق ہی نہیں؟ اس کے خلاف کارروائی شروع کر دی جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی نے دلیل دی کہ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہو بھی گئی ہے تو اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا آپ نے مسز سرینا عیسیٰ کا ویڈیو بیان سنا تھا؟ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا مسز سرینا عیسیٰ سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو FBR بھیجنا چاہتے ہیں، کیا آپ اتفاق کرتی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ایک انتہائی اہم سوال اٹھایا کہ مسز سرینا عیسیٰ کیس میں فریق بھی نہیں تھیں لیکن ان کو پوچھے بغیر ان کو سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنا کیا انصاف تھا؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ ان کے پاس مسز سرینا عیسیٰ کے 18 جون کو عدالت میں دیے گئے بیان کی کاپی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی فوری نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتایا کہ مسز سرینا عیسیٰ کا بیان سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ ہے۔ اس موقع پر مسز سرینا عیسیٰ نے کھڑے ہو کر سوال پوچھا کہ میرے بیان کی ویڈیو موجود ہے تو براہ مہربانی کمرہ عدالت میں چلائی جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ جب آپ کی باری آئے گی تو تب دیکھ لیں گے۔
سماعت کو ایک گھنٹہ پندرہ منٹ ہو چکے تھے اور ابھی تک ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے صرف دو فیصلے پڑھے تھے۔ اس پر جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ہدایت دی کہ ہم نے دوسری طرف (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو بھی ہدایت دی تھی کہ مختصر دلائل دیں اور صرف کور ایشوز پر بات کریں تو آپ بھی براہ مہربانی اختصار سے دلائل دیں کیونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور ہم چاہتے ہیں اس کیس کا جلد فیصلہ سنایا جا سکے۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس منظور ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ بینچ کے ایک رکن نے ریٹائر ہونا ہے اور ہم اس سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود اور دس رکنی فل کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس مقبول باقر کی ہدایت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے کوئی جواب آنے سے پہلے ہی سنیارٹی لسٹ میں ان سے سات درجے نیچے یعنی کے جونیئر جج جسٹس منیب اختر نے جسٹس مقبول باقر پر طنز کیا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آپ دلائل دیں۔
اس پر نرم گو جسٹس مقبول باقر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے سینیئر سے بات کرنے کا طریقہ ہے؟ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ اپنے سینیئر کو یوں ٹوکتے ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مقبول باقر کو تحمل کا مشورہ دیا تو جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مؤدبانہ گذارش کر رہا ہوں کہ وہ اختصار سے دلائل دیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ساتھی ججوں کو یاد دہانی کروائی کہ انہوں ( جسٹس مقبول باقر) نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ کو بھی کم از کم چالیس بار سے زیادہ مرتبہ یہی ہدایت دی تھی کہ اپنے دلائل اختصار سے دیں لیکن کسی ساتھی ممبر کو میری اس ہدایت پر اعتراض نہیں تھا؟ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو غیر ضروری طور پر لمبا بولنے دینے میں کچھ لوگوں کی دلچپسی کسی مخصوص وجہ سے ہوگی۔
اس موقع پر چکوال سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی محمد امین احمد نے مداخلت کی اور اپنے مخصوص بارعب انداز میں جسٹس مقبول باقر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ہدایت کی کہ بس کوئی پیراگراف دہرائے گا نہیں اور ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں، آپ اطمینان سے دلائل دیں اور جتنا وقت آپ کو درکار ہے سکون سے لیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اب ایک دفعہ پھر دھیمی آواز میں آہستہ آہستہ ایک اور فیصلہ پڑھنے لگ گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو فیصلہ پڑھتے ہوئے تقریباً دس منٹ ہو گئے تو اب جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے بھی نوٹ کیا کہ عدالت کا وقت کیسے ضائع ہو رہا ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جو فیصلے اور گذارشات جمع کروائی تھیں وہ ہمارے پاس موجود ہیں۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے سرکاری وکیل کو ہدایت دی کہ براہ مہربانی آپ صرف یہ بتا دیں آپ ان فیصلوں کی بنیاد پر کیا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں اور ان کا اس کیس سے کیا تعلق ہے تاکہ عدالت کا وقت بچے۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کا ساتھ دیتے ہوئے دوبارہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے دریافت کیا کہ وہ کیوں اتنا وقت لے رہے ہیں فیصلے پڑھنے میں؟ جسٹس مقبول باقر کا پوچھنا تھا کہ وہ اتنا وقت ضائع کر کے کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ جسٹس مقبول باقر نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ہم مؤدبانہ گذارش کر رہے ہیں آپ سے کہ اختصار سے بات کریں۔
جسٹس مقبول باقر ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس مقبول باقر کی طرف دیکھتے اور غصے سے ان کی طرف ہاتھ سے باقاعدہ اشارہ کرتے ہوئے ان کو مخاطب کر کے کہا کیا جلدی ہے ہمیں؟ کیوں نہیں آپ سرکاری وکیل کو بات کرنے دے رہے؟ سماعت کو ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور ساڑھے 12 بج رہے تھے جب کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ابھی بھی صرف تیسرا فیصلہ پڑھ رہے تھے لیکن جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس مقبول باقر کو کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو پورا وقت دیں، سماعت کا وقت ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے اور اس کے بعد دیکھ لیں گے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے جسٹس عمر عطا بندیال سے جسٹس مقبول باقر کے بارے میں کہا کہ اگر ان کو جلدی ہے تو یہ بینچ سے اٹھ جائیں۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس سجاد علی شاہ کے اس غیر معمولی طور پر ساتھی جج کو براہ راست تنبیہ کرنے کے انداز اور بینچ سے اٹھ جانے کی حیران کن ہدایت پر شدید احتجاج کیا کہ یہ سماعت یوں کسی کے دھونس سے نہیں چلے گی۔ یہ تو حد ہی ہوگئی ہے۔
جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ میں اختصار سے دلائل کی بات جسٹس عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ کو بھی کہتا رہا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اپنے مذموم مقاصد کے لئے سماعت کو طوالت دینا چاہ رہا ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے۔ اس کے بعد جسٹس مقبول باقر نے غصے سے قلم اپنے سامنے پٹخا اور یہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے کہ اس ماحول میں یوں سماعت نہیں ہو سکتی۔ جسٹس مقبول باقر کے کھڑے ہونے پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت میں دس منٹ کے وقفے کا اعلان کر دیا اور تمام ججز بادل نخواستہ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
دس منٹ کے وقفے کے بعد 12 بج کر 40 منٹ پر بینچ دوبارہ کمرہ عدالت میں آ گیا۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیٹھتے ہی ریمارکس دیے کہ ہم سب رمضان کی وجہ سے پانی تو نہیں پی سکتے تھے لیکن باہر جا کر تازہ ہوا لی ہے تاکہ تھوڑا بہتر محسوس کر سکیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ایک بجے ہم آپ کے سامنے سوال رکھیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک اور فیصلہ نکالا اور وہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک بجے تک سماعت کا وقت مکمل ہوا تو اس وقت بھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان ایک فیصلہ ہی پڑھ رہے تھے۔ ایک بجنے پر فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ایک بار پھر یقین دہانی کروائی کہ وہ پورے اطمینان سے جتنا وقت درکار ہے دلائل کے لئے لے سکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ وقت کی قلت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آپ کو پوری طرح نہیں سنیں گے۔ تاہم، ہم ٹائم منیجمنٹ کرنا چاہیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے دریافت کیا کہ آپ کو کتنا وقت اور درکار ہوگا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی میں کچھ دیگر نکات پر بھی بات کرنا چاہوں گا اور اگر ججز نے سوالات کیے تو ان کے جواب بھی مجھے دینے ہوں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان پر فیاضی جاری رکھتے ہوئے انہیں تسلی دی کہ یہ ججز کا حق ہے وہ آپ سے سوال پوچھیں اور آپ کو ہم سوالات کے جواب دینے کے لئے جتنے سوال ہوں گے اتنا ہی اضافی وقت دیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ایک اور اہم سوال پوچھا کہ مسٹر عامر رحمان آپ کے پاس FBR کے ذوالفقار احمد کے مسز سرینا عیسیٰ کے خلاف فیصلے کی کاپی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیصلے کی مکمل کاپی مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی پیٹیشن میں نہیں لگا رکھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فوراً ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ہدایت کی کہ وہ FBR کی رپورٹ میں سے ذوالفقار احمد کے فیصلے کی ایک کاپی نکال کر بینچ میں پیش کریں تاکہ ہم جان سکیں کہ مسز سرینا عیسیٰ پر FBR نے کیوں واجبات کی ادائیگی قرار دی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے FBR کی رپورٹ کے ایک حصے کو عدالت میں لانے کی ایدیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت سے بظاہر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل متفق نظر نہیں آئے اور انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ کو پہلے ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ ایک ایسی رپورٹ کا معاملہ جو سپریم کورٹ میں پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہے کیا ہم دوسری عدالت میں اس کو زیر غور لاسکتے ہیں؟
جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ اندازاً بتا سکتے ہیں کہ کتنا وقت درکار ہوگا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ایک سے دو دن مزید دلائل کے لئے درکار ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ براہ مہربانی کل ہی اپنے دلائل ختم کریں۔ بینچ کے اٹھنے سے پہلے دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بظاہر اپنے ساتھی ججز کو سننانے کے لئے ریمارکس دیے کہ ہم عامر رحمان کو تحمل سے سننا چاہیں گے اور اس کے لئے عدالتی وقار کا بھی خیال رکھا جائے گا۔
سماعت ختم ہوئی تو باہر نکلتے ہوئے سب صحافی ایک دوسرے سے یہی بات کر رہے تھے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور کچھ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے تک فیصلہ نہ آئے اور تبھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل طویل دلائل دے رہے ہیں۔ سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ حکومت کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل جو عدالت کے لا آفیسر بھی ہوتے ہیں وہ اس فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں جو حکومت کے خلاف آیا ہے اور ججز بھی اپنے اکثریتی فیصلے کے ایک حصے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں کا دفاع سرکار کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کروا رہے ہیں۔ بطور عدالت اور آئین پاکستان کے طالب علم میں اب تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اگر نظر ثانی کی اپیلیں ججز کے فیصلے کے خلاف ہیں تو ججز درخواست گزاروں کے دلائل سن کر خود باآسانی طے کر سکتے ہیں کہ ان کے فیصلہ میں کوئی قانونی غلطی ہے یا نہیں اور اس کی بنیاد پر وہ اپیلیں مسترد کر سکتے ہیں یا قبول لیکن یہاں سرکار کے وکیل کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ معزز ججز کو بتائے کہ جو فیصلہ آپ نے کیا تھا وہ بالکل درست ہے۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معزز ججز سرکار یعنی حکومت کے اس وکیل سے اپنے فیصلہ کا دفاع کروا رہے ہیں جس حکومت نے اس کیس کے درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا؟