بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام درست قرار دیدیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 تک کرانے کے احکامات جاری کر دیے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام درست قرار دیدیا

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنادیا گیا۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کو درست قرار دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحالی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس کی سر براہی میں پانچ رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے مرکزی حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والی 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے بعد 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیاتھا ۔

چار سال تک بھارتی حکومت نے اس معاملے کو دانستہ طور پر لٹکاۓ رکھا۔ تاہم آج بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کیلئے دائر اپیلوں پر متعصبانہ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5 اگست 2019 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ آرٹیکل 370 عارضی تھا، ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدر کا حکم آئینی طور پر درست ہے۔ بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں۔ آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا۔ جموں کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 تک کرانے کے احکامات جاری کر دیے۔

بھارتی حکومت نے عدالت سے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے لیکن اس کی ریاست کی بحالی کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں بتا سکتی۔کشمیری عوام بھارت کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔ ماہرین کے مطابق آج کے فیصلے سے پتہ چل جائے گا بھارتی عدلیہ آزاد ہے یا اس پرمودی کاتسلط برقرارہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندستانی انتہا پسندی اور مودی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے تناظر میں کشمیریوں کو ہندوستانی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مودی مکمل طور پر ہندوستان کے تمام اداروں بشمول عدلیہ، فوج، گورننس، میڈیا اور پارلیمنٹ کو کنٹرول کر چکا ہے اس لیے کسی غیر متوقع فیصلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس فیصلے سے واضح طور پر پتا چل جائے گا کہ کیا بھارت کی عدلیہ آزاد ہے یا مودی کا تسلط اِس پر پوری طرح قائم ہو چکا ہے ؟ 

ادھر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیریوں کے حقوق کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ انسانی حقوق کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کےعالمی منشور کی حمایت، پاسداری جاری رکھےگا۔ پاکستان نے ملکی،بین الاقوامی سطح پرانسانی حقوق کےتحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان بلاتفریق مذہب، رنگ و نسل انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کوشاں رہےگا،ان کا کہنا تھا بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ 5 اگست2019کے غیر قانونی بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ بھارت نے اس دوران کشمیر میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کیں۔

2019 سے قبل ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے ہنگامی سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا معاملہ 4 سال تک دانستہ طور پر لٹکائے رکھا۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کیں۔عوام نے بھارت کے ظالمانہ فیصلے کیخلاف بھرپور احتجاج کیا۔