نواز شریف کا بیانیہ ملک و قوم کی بھلائی کا ترجمان ہے

'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا'، یہ جملہ نواز شریف نے 1993 میں اپنی حکومت کے خاتمہ سے پہلے ٹی وی پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اور وہ آج بھی اپنی اس بات پر قائم نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں نواز شریف فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں اور یہی وجہ اختلاف ہے۔

نواز شریف کا بیانیہ ملک و قوم کی بھلائی کا ترجمان ہے

غلام اسحاق خان اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کرتے کرتے کلرک سے صدر پاکستان کے عہدے تک جا پہنچے لیکن ان کی ذہنیت وہی رہی اور اپنی سیاسی زندگی کی آخری سانس تک آقاؤں کی تابعداری ان کا ایمان رہا۔ پہلے انہوں نے آقاؤں کے اشارہ ابرو پر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برخاست کی اور پھر نواز شریف کے پیچھے پڑ گئے اور ان کے سیاسی مخالفین کو ساتھ ملا کر سازشیں کرنا شروع کر دیں۔

'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا'، یہ جملہ نواز شریف نے 1993 میں اپنی حکومت کے خاتمہ سے پہلے ٹی وی پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اور وہ آج بھی اپنی اس بات پر قائم نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کے مخالفین کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی بھی آرمی چیف سے نہیں بنتی لیکن اس کی جو وجوہات وہ بیان کرتے ہیں وہ تعصب پر مبنی ہیں۔ حقیقت میں نواز شریف فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں اور یہی وجہ اختلاف ہے۔

سابق آمر ضیاء الحق نے آئین میں 58 ٹو بی کی شق ڈال کر صدر پاکستان کو اسمبلی برخاست کرنے کا اختیار دے دیا تھا اور اسی اختیار کے تحت پہلے غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے حکومتیں فارغ کیں اور پھر صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کیا۔ نواز شریف کو جب 1997 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملی تو انہوں نے آئین سے اس شق کو نکال دیا۔

آئین سے 58 ٹو بی کے نکالے جانے کے بعد ایک نیا کھیل شروع ہوا اور اب صدر پاکستان کی جگہ عدلیہ نے لے لی۔ اسٹیبلشمنٹ نے اب عدلیہ کو ساتھ ملا کر حکومت فارغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہماری عدلیہ روز اول سے ہی اس قسم کے کام کرنے کی ماہر تھی اس لئے اپنے پرانے اختیار کی بحالی پر بہت شاداں نظر آئی اور پھر جو کھیل کھیلا گیا وہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ششدر رہ گئی۔ نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کا کیس ہو یا گلف اسٹیل کا، پانامہ کا معاملہ ہو یا العزیزیہ کا، عدلیہ سارے مقدمات میں فریق نظر آئی اور جب تمام تر نام نہاد تحقیقات کے بعد بھی نواز شریف کے خلاف کچھ نہ ملا تو انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں اس بات پر نا اہل کر دیا گیا کہ بیٹے سے تنخواہ لی نہیں لیکن لے تو سکتے تھے اور اس کا ذکر گوشواروں میں نہیں کیا۔ آج حالت یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف دیے گئے تمام فیصلے ریورس ہو رہے ہیں اور سزا دینے والے ججز عوام میں جانے کے لائق نہیں رہے۔

آئندہ انتخابات میں نواز شریف کی جیت دیوار پر لکھی ہوئی ہے لیکن وہ خود بہتر جانتے ہیں کہ عمر اور صحت کے مسائل کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ یہ ان کا حکومتی عہدے پر رہنے کا آخری موقع ہو اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ عمران پروجیکٹ کے تمام کردار خواہ ان کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالع آزما پھر کسی جمہوری حکومت کے خلاف سازش نہ کر سکے۔

آج اسٹیبلشمنٹ کے وہ سازشی کردار مسند پر براجمان ہیں اور نہ ہی ان کے شریک جرم ججزعدلیہ میں موجود ہیں بلکہ دونوں اداروں میں ایسے لوگ با اختیار عہدوں پر فائز ہیں جو صرف اور صرف آئین کے تحت اپنے عہدوں سے وفا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئیے کہ یہ دونوں ادارے بھی ماضی میں کی گئی سازش کے کرداروں کو عوام کے سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوں گے کیونکہ مملکت خداداد کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔