پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سٹاف کو بدسلوکی کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟

پاکستان پبلک سکول اینڈ کالج مرشد آباد کی انتظامیہ نے خواتین پر نظر رکھنے کے لیے اپنا بندہ گرلز سیکشن میں بھیج دیا۔ اس نے نا صرف مجھے بلکہ تمام ٹیچرز کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ٹیچرز کی کلاس میں جا کر بیٹھ جاتا، خواتین ٹیچرز کے سٹاف روم میں بیٹھا رہتا اور کہتا کہ مجھے مالکان نے ایسا کرنے کو کہا ہے۔

پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سٹاف کو بدسلوکی کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟

کبھی کبھی آپ کی کامیابی آپ کی ملازمت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ بظاہر بڑے نظر آنے والے لوگ بھی پروفیشنل جیلسی کا شکار اور ذہنی مریض ہوتے ہیں۔

میرا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ میں فری لانس صحافت کرتی ہوں اور ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے لئے باقاعدگی سے بلاگز لکھتی ہوں۔ اِس کے ساتھ ساتھ میں پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک اخبار کے لئے بھی لکھتی ہوں۔ اِس سال مجھے پولیو پروگرام میں وی او اے ڈیوہ (وائس آف امریکہ) کی جانب سے ترکی جانے کا موقع ملا جو میرے لئے قابل فخر تھا۔ اِس خوشگوار سفر کے بعد لوگوں کی تنگ نظری اور منفی سوچ سامنے آتی گئی۔

فری لانسنگ کام کے ساتھ ساتھ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک پرائیویٹ سکول میں بطور ایڈمن پچھلے کئی سالوں سے کام کرتی تھی۔ اس سکول کا نام ' پاکستان پبلک سکول اینڈ کالج' ہے اور یہ پشاور میں کوہاٹ روڈ پر مرشد آباد میں واقع ہے۔ ترکی سے واپس آنے کے بعد سکول پرنسپل سمیت مالکان کا رویہ بدل گیا۔ وہ طرح طرح سے مجھے ذہنی طور پر ٹارچر کرنے لگے۔ میرا ہر کام بار بار چیک کرتے اور بغیر کسی غلطی کے، یہ کہتے رہتے کہ آپ کا ذہن تو کہیں اور ہے۔

جب بھی میرا بلاگ یا کوئی فیچر شائع ہوتا تو خاص طور پر اُس دن میٹنگ میں مجھے ٹارگٹ بنایا جاتا۔ میرویس، سکول کا مالک، تمام اساتذہ کے سامنے مذاق اڑاتے کہ رانی پتہ نہیں کس کے لئے لکھتی ہیں، میں تو کبھی پڑھتا بھی نہیں ہوں اور میں کیا کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ لیکن اِن باتوں سے میں کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ناکام اور احساس کمتری میں مبتلا لوگوں کے پاس تنقید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

غرض سکول انتظامیہ کی جانب سے مجھے ہر طرح سے تنگ کیا گیا۔ لیکن میرا ایک اصول ہے کہ میں کبھی ہار نہیں مانتی۔ اس لئے سکول کے مالکان اور پرنسپل شعیب، میرویس اور سہیل نے اپنے ایک بندے جس کا نام اصغر ہے، اُس کو گرلز سیکشن میں اِس غرض سے بھیج دیا کہ اِس کو (یعنی مجھے) اتنا تنگ کرو کہ یہ لڑکی خود استعفیٰ دے دے کیونکہ اٗن کے پاس مجھے سکول سے فارغ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

اصغر نے نا صرف مجھے بلکہ تمام اساتذہ کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ وہ اُن کی کلاس میں جا کر بیٹھ جاتا، سٹاف روم میں بیٹھ جاتا۔ وہاں پر واش روم بھی تھا تو استانیاں سٹاف روم اکیلی نہیں جا سکتی تھیں۔ وہ کس طرح ایک غیر مرد کے سامنے واش روم جاتیں۔ اول تکرار تو اِس بات پر ہوئی کہ 'اصغر صاحب! آپ اِس طرح سٹاف روم میں نہ بیٹھا کریں، ٹیچرز مجھ سے شکایت کرتی ہیں'۔ لیکن اصغر نے کہا؛ 'مجھے یہاں مالکان نے بٹھایا ہے'۔

اصغر کسی استانی سے کہتا کہ آپ تو بڑی صحت مند ہو، کیوں؟ کسی سے کہتا کہ آپ تو بہت کمزرو ہو، کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو کیا؟

ایک دن ایک انٹرنیشنل میڈیا ادارے سے مجھے کال آئی۔ میں بات کرنے کیلئے ایک سائیڈ پر ہوئی تو اصغر پیچھے کھڑا رہا اور میری باتیں سنتا رہا جو ایک غیراخلاقی حرکت تھی۔ اِس پر بھی اُس کے ساتھ کافی بحث ہوئی۔ جب میں نے سہیل اور شعیب سے شکایت کی تو الٹا مجھے ایکسپلینیشن کال دی گئی۔ میں تو ایڈمنسٹریشن میں تھی اور ہمیں موبائل استعمال کرنے کی اجازت تھی۔

2 دسمبر کی صبح جب میں اپنے 3 بھتیجوں کے ہمراہ سکول گیٹ پر پہنچی تو سکول چوکیدار نے ہمیں وہاں پر ہی روک لیا کہ آپ اندر نہیں جا سکتیں۔ چاچا نے جو بات کہی مجھے اتنی ناگوار محسوس ہوئی کہ اِک دم سے میں نے اپنا موبائل پرس سے نکالا اور کہا؛ 'اچھا! آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ دوبارہ کہیں کہ سکول کے پرنسپل نے مجھے سکول آنے سے کیوں منع کیا ہے۔ میں آڈیو ریکارڈ کرتی ہوں یا پھر میں ویڈیو بنا لیتی ہوں'۔

وہاں پر موجود تمام لوگ دیکھ رہے تھے۔ میں نے سب کے سامنے سکول کے چاچا سے کہا؛ 'یہ تمام باتیں اب کہو!' تو چاچا ڈر گئے اور دوسری طرف بھاگ اٹھے۔ یہ کہتے ہوئے کہ اِن سب کے سامنے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا۔

چاچا کے مطابق پرنسپل نے کہا تھا کہ رانی کو کچھ بھی نہیں آتا، اب وہ اِس گیٹ کے اندر نہ آئے۔ میں پچھلے کئی سالوں سے اِس سکول میں ٹیچنگ کر رہی تھی۔ تو وہ کیا تھا؟ کیا سکول والے اتنے اچھے ہیں کہ مفت میں تنخواہ دیتے ہیں؟ میں نے تو کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں دیکھا جہاں مفت میں پیسے ملتے ہوں۔

میں خود ہی ملازمت چھوڑ رہی تھی لیکن 3 بھتیجوں کی خاطر یہ بے جا سختی برداشت کر رہی تھی تاکہ اُن کا سال ضائع نہ ہو۔ لیکن میرے ساتھ اِن بچوں کو بھی سکول سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ساتھ میں سکول انتظامیہ میری 2 ماہ کی تنخواہ دینے سے بھی انکاری ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اُن کے پاس میری اصل تعلیمی اسناد بھی ہیں۔ وہ یہ اسناد دینے سے بھی انکاری ہیں۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتی۔ ملازمت پر جانے کی مجھے کوئی فکر نہیں لیکن اپنی بے عزتی اور 3 بھتیجوں کا ایک سال ضائع ہونے کا دکھ ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی محتسب خیبر پختونخوا رخشندہ ناز سے کافی تسلی بخش بات ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شاید میں اُن چند خواتین میں شامل ہوں جنہوں نے کسی پر ہرجانے کا کیس دائر کیا ہے۔ امید ہے کہ مجھے انصاف ضرور ملے گا۔

رانی عندلیب فری لانس جرنلسٹ ہیں اور Tribal News Network کے لیے بلاگز لکھتی ہیں۔