وفاقی دارالحکومت میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین موجود ہیں جو کہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے مطالبات لے کر اسلام آباد پہنچے تھے لیکن ان پر امن مظاہرین پر حکومت کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا جس کے بعد ان میں سے کئی زخمی ہیں جب کہ بدھ کے روز پورا شہر ایک طرح سے میدانِ جنگ بنا رہا۔ جہاں وفاقی وزرا اور مشیران و معاونینِ خصوصی و ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج خود کو طفل تسلیاں دینے کی خاطر میڈیا پر یہ ثابت کرنے پر تلی تھی کہ سڑکوں پر کوئی شخص موجود نہیں، سڑک پر موجود رپورٹرز حقائق دکھانے پر بضد نظر آتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ دنیا نیوز پر اس وقت پیش آیا جب وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل صاحب نے ٹی وی پر بیٹھ کر یہ غلط بیانی کی کہ وہ سارا راستہ دیکھتے ہوئے آئے ہیں اور انہیں کہیں کوئی مظاہرین نظر نہیں آئے۔ موقع پر موجود دنیا نیوز کے رپورٹر نے ان کی تصحیح کی اور بتایا کہ ان کے ارد گرد ہر طرف لوگ سڑکوں پر موجود ہیں، خواتین یہاں سونے کے لئے اپنا سامان تک لائے بیٹھی ہیں تو شہباز گل نے ان پر حکومتی جماعت کے معمول کے مطابق پارٹی بننے اور ایجنڈے کے تحت رپورٹنگ کا الزام لگا دیا۔ چینل نے رپورٹر کو سکرین سے غائب کر دیا لیکن بعد ازاں ان کے شدید احتجاج پر رپورٹر کو واپس لایا گیا جس نے کیمرے سے شہباز گل کو دکھایا کہ وہاں پر لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔
یہ تو ہوا حکومت کی جانب سے بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ موند کر یہ سمجھنے کی روش پر عملدرآمد کا ایک اور مظاہرہ لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک صورتحال تب دیکھنے میں آئی جب وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز صاحب مظاہرین سے بات چیت کرنے گئے اور ان کے تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر انہیں جواب دیا کہ آپ اپنے اخراجات کم کریں۔ گویا انقلابِ فرانس کے موقع پر شہزادی ماری انٹوئنیٹ کا روٹی کی جگہ کیک کھانے کا مشورہ تو ایک طرف، شبلی فراز تو مشتاق غنی سے بھی آگے نکل گئے جنہوں نے کوئی دو سال قبل قوم کو بچت کرنے کا طریقہ یہ بتایا تھا کہ وہ دو کی بجائے ایک روٹی کھا لیا کریں۔ غضب خدا کا، ایک ملک کہ جہاں دوائیوں کی قیمتیں تک ڈھائی سو فیصد کے حساب سے بڑھتی ہوں، چینی آسمان سے باتیں کرتی ہو، انڈوں کی قیمت 150 روپے فی درجن سے تجاوز کر چکی ہو، سبزیاں، دالیں، گھی، آٹا، بجلی، گیس، غرضیکہ ہر ضرورت کی شے کی قیمت ساتویں آسمان سے باتیں کر رہی ہو، وہاں وزیر اطلاعات صاحب مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنے اخراجات کم کریں، آپ کی تنخواہ میں آپ کا گزارا ہو جائے گا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں وزیر اعظم خود کہتا ہو کہ میری دو لاکھ روپے تنخواہ ہے اور تنخواہ میں میرا گزارا نہیں ہوتا، وہاں سرکاری ملازمین کو کہا جا رہا ہے کہ وہ چند ہزار روپے میں پورا خاندان چلائیں اور اگر نہیں چلتا تو اپنے اللے تللے کم کریں۔
دوسری جانب خود کو اس ملک کے عوام کا حقیقی نمائندہ کہنے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہے جس نے سارا دن سرکاری ملازمین کو لاٹھیاں، آنسو گیس اور واٹر کینن کا سامنا کرنے دیا لیکن یہ ضرورت محسوس نہ کی کہ وہ بھی جا کر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے۔ رات گئے کسی وقت عظمیٰ بخاری صاحبہ پہنچیں، اپنی حکومت کے مبینہ کارنامے گنوائے، حکومت کو جادو ٹونے سے چلانے جیسی لغو باتیں کیں اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو خود کو حکومت کا متبادل ثابت کرنا چاہتی ہیں، یہ بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لینے سے قاصر ہیں۔ یہ بھی ان کے ساتھ لاٹھی کھانے کو تیار نہیں۔ مرتضیٰ سولنگی کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو PDM کا خاتمہ جلسوں جلوسوں میں کم یا زیادہ تعداد سے نہیں ہوگا، اس کا خاتمہ عوام کی مشکل کے وقت ان کے ساتھ کھڑے نہ ہونے سے ہوگا۔
لیکن اصل مشکل بہرحال عمران خان کے لئے ہے۔ معیشت کا پہیہ جام ہے، سرکاری ملازمین سڑکوں پر، سیاسی مخالفین استعفے کی مانگ کر رہے ہیں اور وزرا پریس کانفرنس اور ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر یہاں وہاں کی باتیں، جھوٹا سچا پراپیگنڈا کرنے کے سوا کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ سینیٹ انتخابات سر پر کھڑے ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہی سرکاری ملازمین چند ماہ بعد الیکشن میں ووٹ بھی دے رہے ہوں گے۔ بدھ کے روز احتجاج میں ملازمین حکومت کو جھولیاں بھر بھر کے بددعائیں دے رہے تھے۔ ایک نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سب کو چور اور ڈاکو کہہ کر ووٹ مانگتا تھا تو ہم سمجھتے تھے کہ یہ کچھ ضرور عوام کا درد رکھتا ہے لیکن آج ڈھائی سال بعد ہم کہتے ہیں کہ یہ تو ساروں سے بڑا چور ہے۔
عمران خان صاحب بھلے کرپشن میں ملوث ہوں یا نہ ہوں، ملک میں کرپشن بڑھ رہی ہے اور اس کا ثبوت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے جسے ماضی میں وہ خود بہت معتبر بتایا کرتے تھے۔ عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے لوگوں کی کمر بالکل توڑ کر رکھ دی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2020 میں پاکستانیوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی کو بھی جھیلا۔ یہ 12 سال میں مقدارِ زر کی بلند ترین سطح تھی۔ لیکن اس کے باوجود نئے سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک فیصد بھی اضافہ نہ کیا گیا۔ اکتوبر میں سرکاری ملازمین سڑکوں پر آئے تو حکومت نے 20 فیصد اضافے کا مطالبہ تسلیم کر لیا لیکن اس پر عملدرآمد نہ کیا۔ نتیجتاً اب ایک مرتبہ پھر سرکاری ملازمین سڑکوں پر ہیں، حکومتی بربریت کا سامنا بھی کر رہے ہیں، اور حکومت کے پاس انہیں دینے کے لئے شاید کچھ بھی نہیں۔ یہ حکومت لیکن اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ مطالبات ماننا تو دور، الٹا مظاہرین کو مارتی ہے۔ کسان لاہور آئے تو ان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ ایک رہنما جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جس نے اس کی FIR کروائی، گذشتہ روز اسے بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب سرکاری ملازمین سڑکوں پر ہیں تو ان کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔
جیو نیوز کے رپورٹر زاہد گشکوری کے مطابق56 سرکاری ملازمین کو ان کے دفاتر سے اٹھایا گیا، کیونکہ یہ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کئی لاپتہ ہیں۔ حکومت یاد رکھے کہ یہ جبر اس کو بہت مہنگا پڑے گا۔ اور اپوزیشن بھی یہ مت بھولے کہ عوام ان کا انتظار نہیں کریں گے۔ اپوزیشن کو اپنی آپسی لڑائیوں سے فرصت نہیں، حکومت کو ہر غلطی سابق حکومتوں کے سر دھرنے کے سوا کوئی کام نہیں، اور دوسری طرف عوام ہیں جو اب معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کو تیار ہو چکے ہیں۔