پاکستان کے چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف 5 فروری کو دبئی میں انتقال کر گئے۔ ان کی شخصیت میں ایسے تضادات اور مشکلات کی جھلک نظر آتی ہے جس نے ان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
عام شہریوں کے لئے توہین آمیز احساسات رکھنے والے ایک فوجی آدمی نے جمہوریت کی بحالی، معیشت کی تعمیر نو اور دہشت گردی کے خاتمے کا وعدہ کرتے ہوئے 1999 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے سے اقتدار سنبھالا تھا۔ ان تمام شعبوں میں بہتری لانے میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ 2008 میں انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور سیاستدانوں نے انہیں عبرت کا نشان بنانے کے ارادے سے ان پر مقدمہ قائم کیا تھا۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے پرویز مشرف سے پہلے والے تمام فوجی حکمران محفوظ رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جلاوطنی اختیار کر لی اور گمنامی میں رہنا شروع کر دیا۔
پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ملکی معاملات کو توازن میں رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ توازن بہت سطحی نوعیت کا ثابت ہوا۔ درحقیقت پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد سے پاکستان ایک کے بعد ایک بحرانوں سے دوچار ہو گیا ہے۔ ملک کی جمہوریت بدستور غیر یقینی صورتحال میں ہے، معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور دہشت گردی پہلے سے بھی بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان ایک ناقابل یقین حد تک اہم ملک ہے اور آج یہ جہاں کھڑا ہے یہاں تک لانے میں پرویز مشرف کی ملی جلی میراث کا بھی بہت حد تک عمل دخل ہے۔
پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی اور بیرون ملک ان کی میراث بھی خاصی پیچیدہ اور تضادات پر مبنی تھی۔ مشرف نے القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا جب کہ افغانستان میں امریکی افواج سے لڑنے والے طالبان کی حمایت بھی کی۔ اس پالیسی کا نتیجہ طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس کے باوجود پرویز مشرف کو ان کے نسبتاً کمزور جانشینوں کے مقابلے میں امریکہ اپنے اچھے دوست کے طور پر یاد رکھتا ہے۔
اسی طرح بھارت کے ساتھ پرویز مشرف کی امن قائم کرنے کی خواہش بھارت کے بارے میں پاکستان کا قومی بیانیہ جو بھارت دشمنی پر مبنی ہے، اس میں تبدیلی لانے سے انکار کے نتیجے میں متاثر ہوئی۔ پرویز مشرف یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ پاکستان نے نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنے وسائل کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ فوجی مقابلوں میں لگایا ہے۔ عوامی زندگی میں فوج کی مقبولیت اس مفروضے پر قائم ہے کہ ہندوستان پاکستان کے لئے ایک وجودی خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کے ساتھ دیرپا امن کا قیام پاک فوج کی مراعات یافتہ پوزیشن کا خاتمہ کر دے گا۔ ایک پکے فوجی آدمی کی حیثیت سے پرویز مشرف اس معاملے پر بہت کم پیش رفت حاصل کر سکے۔
انہوں نے کبھی بھی ہندوستان کو نشانہ بنانے والے پاکستانی دہشت گرد گروہوں کے خلاف تسلی بخش کریک ڈاؤن نہیں کیا۔ یہ ایک اور اشارہ ہے کہ وہ کس حد تک جانے کو تیار تھے اور ان کی حدود کیا تھیں۔
2009 میں جب انہیں عہدے سے ہٹایا جا چکا تھا، ان کے دورہ امریکہ کے دوران میں نے پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ میں اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اس سویلین حکومت کی نمائندگی کر رہا تھا جس نے مشرف کی برطرفی کے بعد حکومت سنبھالی تھی۔ واشنگٹن کے فور سیزنز ہوٹل میں ان کے سویٹ میں ہم نے کھل کر گفتگو کی۔ سابق طاقتور فوجی حکمران اپنے سب سے بڑے ناقدین میں سے ایک کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔
ملاقات کے دوران مشرف نے اپنے سیکھنے کے عمل اور دشمن سے لڑائی کرنے کے لئے تربیت حاصل کرنے والے فوجی سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل پیچیدہ پاکستانی قوم کے صدر بننے تک کے ارتقائی عمل کے بارے میں بصیرت سے بھرپور گفتگو کی۔ پاکستان حکمرانی کرنے کے لئے ایک مشکل ملک ہے، یہ خیال بیان کرتے ہوئے وہ خاصے مخلص دکھائی دیے اور یہ بھی کہ ان کے عزائم ہمیشہ حب الوطنی پر مبنی تھے، حتیٰ کہ تب بھی جب ان کے اعمال میں آئینی اور قانونی حدود کا احترام شامل نہیں ہوتا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے اعتراف کیا کہ وہ ایک ایسے کلچر کی پیداوار ہیں جو فوج کو پاکستان کی کائنات کا مرکز سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں ملک کے معاملات درست کرنے کے ضمن میں آرمی چیف کو تقریباً الوہی اختیارات حاصل ہیں چاہے اس ضمن میں قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرنی پڑ جائے۔ 1999 میں اقتدار میں آنے کے بعد پرویز مشرف کو ان عام شہریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاملات کرنے پر مجبور ہونا پڑا جن کے بارے میں فوج میں انہیں تربیت دی گئی تھی کہ انہیں ہمیشہ کم تر سمجھنا ہے۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے مجھے بتایا تھا؛ 'فوج کا سوچنے کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے اور اگر پیچھے کی جانب دیکھا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ یہ (فوجی) سوچ ملک کو سنبھالنے کے لئے درست نہیں ہے'۔
جب پرویز مشرف جلاوطنی میں تھے تو اپنی غلطیوں کو نجی طور پر تسلیم کرنے پر تیار نظر آتے تھے مگر ان غلطیوں پر عوام کے سامنے پشیمانی ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جنوری 2008 میں ورلڈ اکنامک فورم کے لئے پاکستان کے صدر کے طور پر اپنے آخری دورے کے دوران پرویز مشرف نے پاکستان کو ایک مشکلات سے گھرا ہوا ملک قرار دیتے ہوئے اپنا دفاع کیا تھا۔ اس وقت تک وہ پاکستان کے چیف جسٹس کو ہٹانے کے اپنے فیصلے پر ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر چکے تھے۔ اس عرصے کے دوران اپنے میڈیا انٹرویوز میں وہ پاکستان کے عوام کو بدنظم، 'قبائلی' اور 'جاگیردار' ذہنیت کے مالک قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ جدید جمہوریت کے لئے ابھی تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان فطری طور پر 'بدعنوان' ہیں، پاکستان کی سپریم کورٹ کے ججز 'سیاست زدہ'، 'نااہل' اور 'اقربا پرور' ہیں۔ پاکستان کے صحافی ملک کی فوج اور اپنے ملک کو نقصان پہنچانے پر مائل ہیں۔ ان کے خیال میں (جو کسی حد تک درست بھی ہے) پاکستان کے مذہبی رہنما 'انتہاپسندی' کی جانب رجحان رکھتے ہیں۔
ایک یورپی صحافی نے اس وقت مجھ سے سوال کیا تھا؛ 'جب اپنی قوم کے لئے مشرف اس حد تک حقارت آمیز رویہ رکھتے ہیں تو پھر وہ اسی قوم کی قیادت کس لئے کرنا چاہتے ہیں؟'
پرویز مشرف کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سے پاکستان کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، اپنے ملک کی اشرافیہ میں پائی جانے والی جن خصوصیات کا ذکر پرویز مشرف نے کیا تھا ان میں ابھی تک کوئی بدلاؤ نہیں نظر آیا۔ لیکن جس طرح وہ تباہی کے دہانے پر کھڑی قوم کو نجات دلانے میں ناکام رہے، پرویز مشرف کے جانشینوں کو بھی اس سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے: جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لئے خودساختہ مسیحاؤں کے بجائے فعال جمہوریت اور ایک معاشی منصوبہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
حسین حقانی کا یہ مضمون The Washington Post میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔
حسین حقانی سینیئر صحافی ہیں اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ حسین حقانی کی ایک وجہ شہرت ان کی تصانیف بھی ہیں۔