تحریر:(سمیع الرحمنٰ)
آج کل کے سیاسی منظرنامے میں 26ویں آئینی ترمیم ایک اہم بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کو بنیادی طور پر چیف جسٹس کی تقرری اور اُن کی مدت ملازمت کے حوالے سے اہم تبدیلیوں کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس ترمیم کا مقصد عدالتی نظام میں شفافیت اور ذمہ داری کو فروغ دینا ہے، لیکن اس کے نفاذ پر مختلف حلقوں میں تنقید اور اختلاف رائے بھی سامنے آئی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات اور پارٹی پالیسیوں کی بنا پراس ترمیم کو آئینی تحفظ کا ایک ستون قرار دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے حوالے سے حالیہ تقاریر اور بیانات نے اس کی قانونی حیثیت اور آئینی کردار پر روشنی ڈالی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ججز کے اختیارات کے حوالے سے ایک نوٹ میں واضح کیا ہے کہ یہ ترمیم آئین کا ایک لازمی جزو ہے، جسے پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کئے جا سکتے، بلکہ آئینی اصولوں کی پاسداری اور شفافیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اس بیان نے عدالتی آزادی اور آئینی استحکام کے حامی حلقوں کو خوش کیا ہے دوسری جانب اس ترمیم کے حوالے سے سیاسی میدان میں بھی بے چینی نظر آ رہی ہے۔
حال ہی میں 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے سینیٹر قاسم رونجھو کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر انہیں اپنی رکنیت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس واقعہ نے سیاسی اداروں میں پارٹی کی اندرونی تقسیم اور عدالتی اداروں کے ساتھ تنازع کو مزید ابھارا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم نہ صرف عدالتی نظام بلکہ مجموعی سیاسی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کا بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ عدالتی آزادی اور آئینی استحکام کے لیے اس ترمیم کی حفاظت ناگزیر ہے۔ دوسری جانب، سیاسی حلقوں میں اس ترمیم کو لے کر جاری تنازع اور سینیٹرز کا استعفیٰ، آئینی اصلاحات کے نفاذ میں سیاسی طاقتوں کے درمیان اختلافات کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صورتحال آئینی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ سیاسی شفافیت اور جوابدہی کے تقاضوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اس ترمیم کے اطلاق اور اس کے اثرات کو مزید قریب سے دیکھا جائے گا کہ یہ ملک کی عدالتی اور سیاسی حیثیت میں کیسے تبدیلیاں لاتی ہے۔
26ویں آئینی ترمیم ایک متحرک عمل ہے جو موجودہ سیاسی و عدالتی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے بیان اور سیاسی تنازعات دونوں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آئینی اصولوں اور عدالتی آزادی کی پاسداری کے لیے اس ترمیم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مستقبل میں اس ترمیم کے نفاذ اور اس کے اطلاق کے طریقہ کار میں آئینی اور سیاسی شفافیت کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ ملک میں جمہوری اقدار اور انصاف کے بنیادی ستون مضبوط رہیں۔