پروفیسر رومیلا تھاپر کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہیں دینا بھر کے دانشوروں میں ان کے ہندوستانی تاریخ پر کام کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ پروفیسر رومیلا ابھی بھی پرانے لاہور کی یادوں میں محو ہیں جہاں لارنس روڈ پر ان کے دادا رہا کرتے تھے۔ ان کے والد انڈین فوج میں ڈاکٹر تھے اور انہوں نے پروفیسر رومیلا کو تاریخی کتب پڑھنے کی طرف مائل کیا جس کے نتیجے میں انہیں تاریخ کے مطالعے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ حال ہی میں اپنے تیسرے نخیل چکرورتری میموریل لیکچر "سوال کیا جائے یا سوال نہ کیا جائے - یہی اصل سوال ہے" کے باعث خبروں کی زینت بنیں۔ اس لیکچر میں پروفیسر نے کہا کہ ماہرین وقت کی قوتوں سے سوال پوچھنے سے کتراتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ اور سوال پوچھے جائیں۔ جب وہ نوجوان تھیں تو ان کے والد نے انہیں جہیز یا لندن یونیورسٹی سے ڈگری کے حصول کیلئے پیسوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔ انہوں نے جہیز پر ڈگری کو فوقیت دی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گو ان کی تحاریر میں حقوق نسواں کی جھلک موجود نہیں ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ حقوق نسواں کی علمبردار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نسوانی حقوق کے علمبردار تاریخ دانوں کی لکھی ہوئی تاریخ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
پروفیسر تھاپر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جدید تاریخ کے شعبے کی بانی ہیں جو روایتی قصوں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے مشہور ہے۔ انہوں نے تاریخ کا مطالعہ کرنے والی کئی نسلوں کومتاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب سومناتھا: دی مینی وائسز آف اے ہسٹری (ایک تاریخ کی کئی آوازیں) کو ہندو بنیاد پرست اور نان ریذیڈینٹ انڈین کے گروہوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور امریکہ میں بسنے والے بھارتیوں نے سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن میں ان کی تعیناتی کی مخالفت بھی کی۔ انہوں نے دو مرتبہ بھارت کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ پدما بھوشن وصول کرنے سے انکار کیا۔ بھارتی صدر کو اپنے لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ "چند سال قبل میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں صرف تعلیمی اداروں اور ان اداروں جو میرے کام سے وابستہ ہیں، سے ایوارڈ وصول کروں گی اور ریاست کی جانب سے دیا جانے والا اعزاز قبول نہیں کروں گی"۔ متاثر کن اور عاجز پروفیسر تھاپر اپنی سکالر شپ کو لیکر بیحد سنجیدہ ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مطالعہ کرنے اور لیکچر دینے میں صرف ہوتا ہے۔ مہاتانی باغ دہلی میں واقع ان کے خوبصورت گھر میں بیٹھے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ان کا مطالعے کا کمرہ کون سا تھا اور عام کمرہ کون سا۔ کیونکہ دونوں کمرے کتابوں سے بھرے پڑے تھے۔
مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ایک سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ اس گفتگو کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
زمان خان: سیکیولر بھارت ہندو بھارت میں کیوں تبدیل ہو رہا ہے؟
رومیلا تھاپر :یہ ایک لمبی داستان ہے۔ یہ اس زمانے تک جاتی ہے جب ہمارے ہاں سیکیولر وطن پرستی موجود تھی جو سامراج کے خلاف تھی لیکن اس وقت ہمارے ہاں دو اور کمزور تحریکیں بھی موجود تھیں: مسلم لیگ، جس کی سیاست کا محور مسلمانوں کی مذہبی قوم پرستی، اور ہندو مہا سبھا، جس کا محور ہندوؤں کی مذہبی قوم پرستی تھا۔ سو ہوا یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی قوم پرستی کامیابی سے پاکستان تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس لئے جو گروہ ہندو مذہبی قوم پرستی سے وابستہ تھے وہ بھی اسی طرز کی ریاست کو ابھرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اس وقت تحریک میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو سیکیولرزم کے ساتھ مخلص تھے اس لئے یہ ایک سیکیولر ریاست ہی رہی۔ موجودہ دور میں ہوا یہ ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں کی تبدیلیوں کے بارے میں یہاں لاعلمی اور خود فریبی پائی جاتی ہے اور اس لئے ان روایات سے منہ موڑا جا رہا ہے جو گذشتہ حکومتوں نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب نئی روایات سے توقعات جڑی ہوئی ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ موجودہ حکومت جس کی انتخابی مہم معاشی ترقی پر مرکوز تھی اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹ گئی۔ ریاست اور سماج میں ہندوازم لانے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں اور یہ دن بدن زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں نیو لبرلزم اور مارکیٹ کی معیشت کے باعث مڈل کلاس طبقہ مضبوط ہوا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک ایسے نظام کے قیام کا مؤجب بنا جہاں عدم تحفظ ہے۔ جب عدم تحفظ کا عرصہ ہو تو لوگ آسان جوابوں کی جانب دیکھتے ہیں۔ ہندو شہریوں کو فوقیت دینے کا خیال ان افراد کیلئے ہے جو آسان جواب ڈھونڈتے ہیں۔
زمان خان: کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ نیو لبرلزم، کاروبار اور مذہب کا گٹھ جوڑ خطرناک اور عوام مخالف ہے؟
پروفیسر تھاپر :جی ہاں یہ ایک خطرناک مجموعہ ہے۔ کیونکہ نیو لبرلزم کا مطلب ہے کہ انفرادی سطح پر چیزوں کو چھوڑ دیا جائے چاہے یہ سرمایہ کاری ہو یا پھر پیسہ کمانے کا کوئی اور طریقہ۔ اور تضاد یہ ہے کہ ایک نظریاتی ہندو ریاست کی تشکیل کیلئے آپ کو ان قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہو گا جو اس قسم کی ریاست کی ضرورت کے طور پر مشتہر کیے جاتے ہیں اور معیشت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اور میرے خیال میں مستقبل میں یہ امکان موجود ہے کہ یہ تضاد ایک تنازعے کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔
زمان خان: وہ ملک جو سیکیولر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہاں سیکیولر قوتیں کمزور کیوں ہوئیں؟
پروفیسر تھاپر: میرے خیال میں جو لوگ سیکیولر تھے انہوں نے سمجھا کہ سیکیولرزم اب ہمیشہ رہے گا اور وہ اس خیال پر بہت اعتماد کرنے لگ گئے کہ ریاست چونکہ سیکیولر ہے اس لئے یہ سیکیولرزم کے فروغ کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے عوام کے بیچ اتنا کام نہیں کیا کہ جس سے لوگ یہ سمجھ پاتے کہ سیکیولر معاشرہ دراصل کیا ہوتا ہے اور اسے کس قسم کے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں بھارت میں سیکیولرزم کی تعریف مختلف ہے جو میرے خیال میں درست نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ سیکیولرزم کے بارے میں یہ بات کی ہے کہ اس کے باعث تمام مذاہب پرامن طریقے سے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن صرف یہی بہت نہیں ہے۔ آپ تمام مذاہب کی موجودگی اور پنپ پانے کو یقینی بنا سکتے ہیں لیکن جب تک تمام مزاہب کے درمیان سماجی برابری نہ ہو یہ سیکولرزم نہیں ہوتا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن رہنے پر تو زور دیا لیکن ہم نے کچھ مذاہب کو زیادہ غالب کردار دیے۔ یہاں ہماری سیکیولرزم کی تعریف مکمل نہیں ہے۔
زمان خان: کیا آپ کے خیال میں ایسی کوئی تحریک یا افراد موجود ہیں جو ان بنیادوں پر سوچ رہے ہیں؟
پروفیسر تھاپر :فی الحال ایسے افراد موجود ہیں جو ان بنیادوں پر سوچ رہے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی منظم تحریک ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔ کم سے کم میرے علم میں ایسی کوئی تحریک نہیں ہے۔
زمان خان: یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کیونکہ پاکستان میں موجود سیکیولر اور لبرل افراد بھارت کی جانب دیکھتے ہیں۔
پروفیسر تھاپر: جی ہاں، ہندو بنیاد پرستی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو مذہبی بنیادوں پر تضاد کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی بنیادوں پر نہیں۔ فی الحال اس کے فروغ پانے سے کچھ مایوسی پھیلی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ بنیاد پرستی زیادہ پھیلی تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے آئیے امید کریں کہ ہم اس مسئلے سے نبرد آزما ہو سکیں۔
زمان خان: اگر میں درست کہہ رہا ہوں تو ہندو لفظ بعد میں استعمال ہوا، پہلے یہ برہمن تھا یا اور کچھ؟
پروفیسر تھاپر: نہیں یہ برہمن نہیں تھا۔ مختلف مذہبی فرقوں کو یکجا کرنے کیلئے کوئی واحد اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ ہندو کی اصطلاح جنوبی ایشیا میں بسنے والے ان ہندوؤں نے ایجاد کی جو سندھ کے گرد بستے تھے۔ الہند کے لفظ کو سندھو/ہندو کیلئے استعمال کیا گیا۔ شروع میں اس کا مطلب کوئی بھی ایسا شخص تھا جو سندھ کے پاس رہتا تھا۔ یہ ایک جغرافیاتی اصطلاح تھی اور بتدریج جب ہندوؤں کو مسلمانوں اور مسیحیوں سے الگ تشخص کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسے ان افراد کیلئے استعمال کیا گیا جو مسلمان یا مسیحی نہیں تھے۔ یہ 14ویں او 15ویں صدی میں مذہبی معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوئی لیکن بنیادی طور پر یہ ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر ایجاد ہوئی تھی۔
زمان خان: آپ نے کہا تھا کہ بدھا سب سے پہلا عقلیت پسند تھا؟
پروفیسر تھاپر: میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ بدھا پہلا عقلیت پسند آدمی تھا۔ میں نے کہا تھا کہ بدھا ان لوگوں کے گروہوں سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے ویدک برہمنوں کو چیلنج کیا اور انہوں نے ویدا کے آسمانی کتاب ہونے کی حیثیت کو بھی چیلنج کہا تھا۔ انہوں نے روح کے تصور اور دیگر عقائد کو چیلنج کیا تھا۔ لیکن بدھا پہلا منطقی آدمی نہیں تھا اور نہ ہی وہ واحد منطقی شخص تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے منطقی افراد موجود تھے۔
زمان خان: بدھ مذہب بھارت میں کیونکر کمزور ہوا اور دنیا کے دیگر حصوں میں پھلا پھولا؟
پروفیسر تھاپر: یہ ایک مرحلے پر بہت اہم تھا۔ یہ تقریباً غالب مذہب تھا لیکن پھر برہمن مذہب کے سامنے یہ ماند پڑ گیا۔ یہ مشرقی انڈیا کی جانب پھیلا اور وہاں سے تبت اور جنوب مشرقی ایشیا تک پہنچا۔ اس کی ایک اور شاخ شمال مغربی انڈیا میں گندھارا سے ہوتی ہوئی سینٹرل ایشیا اور پھر وہاں سے چین تک پہنچی۔ اس لئے یہ کچھ عرصے تک ایشیا میں ایک غالب مذہب رہا، لیکن بتدریج بھارت میں یہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔
زمان خان: جب ہندو دائیں بازو کے بنیاد پرست زور پکڑ رہے تھے تو اس وقت کے سیکیولر تاریخ دانوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ موجودہ حالات میں ہمیں اس طرح کا مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ آپ نے اپنے لیکچر میں تاریخ دانوں کو تاریخی واقعات پر سوال اٹھانے کیلئے مائل کیا تھا۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ تاریخ دانوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے؟
پروفیسر تھاپر: اپنے نخیل چکراورتی کے لیکچر کے دوران میں نے یہ خیال پیش کیا کہ لوگوں کو ریاست اور سماج سے متعلق ان معاملات پر بولنا چاہیے جن سے وہ اتفاق نہیں رکھتے۔ کیونکہ مجھے یہ پریشانی ہے کہ ان دنوں زیادہ افراد بولتے نہیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ آپ نے جو لفظ "منظم" استعمال کیا ہے مجھے اس سے مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم بطور تاریخ دان گذشتہ پچاس برسوں میں "منظم" تھے۔ ہم سیکیولر تاریخ دان تھے اور ہمارا رد عمل سیکیولر تاریخ سے ابھرا جو ہم رقم کر رہے تھے۔ آپ تاریخ دانوں کو منظم نہیں کر سکتے، تاریخ دانوں کو خود سے تاریخ مرتب کرنے کے طریقے دریافت کرنا پڑتے ہیں۔ ہر تاریخ دان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ جو تاریخ وہ لکھ رہا ہے تاریخی مسائل کی وضاحت یا انہیں سمجھنے میں وہ مدد فراہم کرے گی۔ ایک تاریخ دان کے طور پر میں مذہبی تاریخ پر سیکیولر تاریخ کو فوقیت دوں گی۔ لیکن بطور تاریخ دان ہم تاریخ دانوں کو منظم کرنے کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنے جوابات خود تلاش کرنا ہوتے ہیں۔ تو اگر وہ اپنی لکھی جانے والی تاریخ پر سوالات نہیں اٹھانا چاہتے تو پھر ان پر تنقید کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے؟
زمان خان: نصاب کی کتب علم کی منتقلی کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ آپ کی جانب سے تیارکردہ نصابی کتابیں دائیں بازو کی جانب سے نصابی کتب کو تبدیل کرنے کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
پروفیسر تھاپر: جو چیز ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاشرے میں مختلف اقسام کی شناختیں موجود ہیں تو ان میں سے ہر کوئی تاریخ میں اپنا مقام دیکھنا چاہے گا۔ شناختوں سے ہماری مراد کیا ہے؟ اور ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تاریخی حوالوں کی تبدیلی کے ساتھ شناخت بھی تبدیل ہوتی ہے۔ اگر ہم محض ایک شناخت کی بھی بات کر رہے ہیں تو ہمیں اسے محتاط انداز میں بیان کرنا چاہیے کیونکہ انفرادی شناخت بھی کئی قسم کی تبدیلیوں کے عمل سے گزرتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی شناخت، بھارتی شناخت یا سری لنکن شناخت سے ہماری مراد کیا ہے؟ یہ شناخت اس حقیقت کے علاوہ اور کہاں ہے کہ یہ قوموں اور ملکوں کو ظاہر کرتی ہیں؟ ہم نے ان پر بحث نہیں کی ہے، صرف اپنے تئیں یہ سمجھ لیا ہے۔ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ ہمیں ان عناصر کو تاریخی پس منظر میں باریک بینی سے دیکھنا چاہیے اور مختلف زایوں سے سمجھنا چاییے۔ نسوانی تاریخ بیحد ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی سماجی تاریخ اس وقت تک نہیں لکھ سکتا جب تک کہ وہ اس طرح کے سوالات نہ اٹھائے جو نسوانی تاریخ دان اٹھا رہے ہیں۔
زمان خان: آپ وقت کیسے گزارتی ہیں؟
پروفیسر تھاپر: میں مطالعہ کرتی ہوں، لیکچر دیتی ہوں، اور مباحث میں حصہ لیتی ہوں اور چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھتی ہوں۔
زمان خان: آپ ہندوستان میں موجودہ سیاست کے پس منظر میں سیکیولرزم کا مستقبل کیسا دیکھتی ہیں۔ کیا یہ تبدیل ہو گا؟
پروفیسر تھاپر: یقیناً یہ تبدیل ہو گا۔ میرے خیال میں سیکیولرزم کی تشریح کیلئے بہت سے مباحثے، مکالمے اور شاید جھگڑے بھی ہوں گے۔ لیکن اگر ہمیں جمہوری ملک کے طور پر قائم رہنا ہے تو ہمیں سیکیولر ہی رہنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ یہ تبدیل ہو سکتا ہے اگر ہم آمریت میں بدل جائیں لیکن اس سے سارے خطے کی سیاست متاثر ہو گی۔
زمان خان: کیا آپ بھارت میں آمریت کے آثار دیکھ رہی ہیں؟
پروفیسر تھاپر: مجھے نہیں معلوم۔ اس پر تبصرہ کرنا اس وقت بیحد مشکل ہے۔
زمان خان: دہلی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ عام آدمی پارٹی ایک نئی تبدیلی ہے؟
پروفیسر تھاپر: مجھے بہت کم اندازہ ہے کہ شہر کے ووٹر کیا سوچ رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی ایک وقت میں بہت مقبول تھی، دیکھتے ہیں کہ اب یہ کتنی کامیاب ثابت ہو گی۔
زمان خان: کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں بہتری آئے گی؟
پروفیسر تھاپر: میری شدید خواہش ہے کہ ایسا ہو جائے۔ بالآخر اسے ہونا ہی ہے۔ جب یہ سارا خطہ ثقافتی اور تاریخی حوالوں سے آپس میں جڑا ہوا ہے تو ہونا ایسا ہی چاہیے۔ ایسا ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ دشمنی ہمیشہ قائم رہے گی۔