وہ جس نے پہاڑ صفت لوگوں سے وعدے کیے تھے، اس کا وجود آج بہت چھوٹا ہو گیا

وہ جس نے پہاڑ صفت لوگوں سے وعدے کیے تھے، اس کا وجود آج بہت چھوٹا ہو گیا
آج جب پچھلے ایک ہفتے میں ٹوٹنے والی قیامتوں کا حال لکھنے بیٹھی تو ہاتھ کراچی کی واجبی سی خنکی میں بھی برف کی طرح منجمد ہو گئے۔ سامنے کھلے آسمان کے نیچے، چٹیل پہاڑوں کے بیچ اپنے پیاروں کی لاشوں کے سامنے بیٹھی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں تھیں جو کہہ رہی تھیں ’کوئی انسانوں کو بھی ذبح کرتا ہے، ہمارے پیارے کو بھیڑ بکری کی طرح زبح کیوں کیا؟‘

لکھتے ہوئے روح کانپ کانپ جائے گی لیکن حق کیسے ادا ہو؟ عجیب کیفیت ہے کہ ذہن بار بار علمدار روڈ پر گزاری ہوئی وہ دوپہر وقت کی ساری اونچ نیچ طے کر کے پہنچ جاتا ہے، جہاں میں نے 1994 کی ایک دوپہر امام بارگاہ ولی عصر کے عقب میں موجود چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے گزاری تھی۔

سوچو ان پہاڑیوں نے صدیوں سے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہوں گے۔ اس کے دامن میں بسنے والے کتنے ہی آئے اور چلے گئے لیکن یہ پہاڑیاں ان کے اوپر گزرنے والی صعوبتوں، خوشیوں اور نجانے کتنے واقعات کی گواہ بن گئیں۔ میں سوچتی تھی کے خدا اگر ان پہاڑوں کو زبان دے دے تو یہ اپنے سامنے گزرنے والے ظلم کی وہ داستانیں سنائیں کہ جن کو سن کر روحیں جسم کی قید کو چھوڑ جائیں۔

پچھلے ایک ہفتے میں وقت جہاں سوشل میڈیا پر اپنوں اور غیروں کے نفرت انگیز سوالات کے جواب دینے میں گزرا وہیں یہ سوچتے ہوئے بھی گزرا کہ مزدور اور وہ بھی کان کن، کسی کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ سوئے ہوئے کان کن جن کو چند بھیڑیا صفت انسانوں نے نیند سے جگا کر کاٹ ڈالا، درندگی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن قلم بار بار نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کی پردہ پوشی نہیں کر سکا کہ ان مظلوموں کے گلے کاٹنے والوں کے لئے یہی وجہ کافی ہے کہ ان کا تعلق ہزارہ برادری سے اور شیعہ مسلک سے ہے۔

آج سے 20 برس پہلے جب بلوچستان کے قصبے کی دیواروں پر ایک فرقہ واریت سے لیس نعروں کو لکھے دیکھا تھا تو خدا سے دعا کی تھی کہ ہماری بس جلدی سے اس علاقے سے باہر نکل جائے۔ شاید بچپن تھا، اس لئے سمجھ نہیں تھی کہ درندے صرف ان قصبوں میں نہیں رہتے، وہ بڑے بڑے ایوانوں میں اور حکومتوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جو خاموشی سے کٹتے گلوں کو دیکھتے ہیں، آہیں اور فریادیں سنتے ہیں لیکن ان کے مردہ دلوں میں کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر بہت لکھا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ جو خاموش ہے وہ بھی مجرم ہے، لیکن آبلے پڑی زبانوں میں جنبش نہ ہوئی۔

سسکتی آہیں، بہتے آنسو تماشہ بن گئے۔ پھر یوں ہوا کہ جو اپنے گھروں کو چھوڑ کر مظلوم کی آواز بن گئے ان کو پتھر مارے گئے اور ان کی جمع پونجی سے خریدی گئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔

مارو ان کو اور مارو، شہر بند کرتے ہیں، ان کو نہ چھوڑو، جیسی آوازیں رستے ہوے زخموں پر نمک چھڑکنے لگیں۔ ’’ہم نے تو اپنے بچوں کو نفرت نہیں سکھائی، یہ ہمارے مردوں کو قتل کرتے ہیں، چوراہوں، اخباروں، پرچیوں پر لکھ کر بھیجتے ہیں کے تمہاری عورتوں کو لونڈی بنائیں گے‘‘ بھوک ہڑتال تا مرگ کے لئے بیٹھے ایک ہزارہ جوان نے حکومتی کارندے کے ویڈیو پیغام میں کہا۔

جہاں بے حسی کا بازار پہلے ہی گرم تھا، وہاں ہزارہ کے مظلوموں نے بار بار حاکم وقت کو آواز دی، اتنی آوازیں کہ گلے خشک ہو گئے، حوصلے ٹوٹنے لگے، بہنیں اپنے بھائی کی ذبح شدہ لاش حاکم وقت کو دکھا کر انصاف کرنے کی امید پر چلاتیں نہیں۔ وہ جس نے پہاڑ صفت لوگوں سے وعدے کیے تھے، اس کا وجود ہر ساعت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے حجت تمام کی اور لاشوں کے ساتھ بیٹھی امیدوں کو اپنی بے حسی کی زبان کے خنجر تلے ذبح کر ڈالا۔

جو مر گئے تھے ان کو ایک بار پھر مار ڈالا۔ اپنی لاشوں کو دفنا دو، وہ جو خاموش بیٹھے تھے فتوے دینے لگے۔ قاتلوں نے بھی پہلی بار حکومت وقت کی حمایت میں بیان جاری کیا۔

مظلوم پر تہمتیں لگیں، قیامت پہ قیامت آئی۔ لگتا ایسا تھا جیسے شام غریباں ہو اور تنِ تنہا اہل حرم ہوں، کوئی آسرا کارگر نہ ہو۔ لفظوں کے کوڑے ہوں، پینے کو زہر کے گھونٹ ہوں اور سونے کو آگ کا بستر۔ لاشیں دفنا دی گئیں، امیدیں، خواب منوں مٹی تلے دب گئے لیکن بہشتِ زینب قبرستان میں سو جانے والے دلوں میں زندہ ہو گئے۔ ایوانوں میں ڈر کے بیٹھ جانے والے ظلم پر خاموش ہوجانے والے، مظلوموں کو خاموشی کا درس دینے والوں کے ضمیر کا جنازہ نکل گیا۔