سنبھل کے چلنا
کے میرے مندر کی سیڑھیوں پے
کسی کے ہاتھوں سے ایک شیشا
گرا تھا جس کے ریزے بھکر گئے ہیں
وہ خوبصورت جوان سی لڑکی
کے جس نیلے نین میں پنہاں محبتوں کے نئے فسانے
وہ جب بھی پوجا پاٹ کرنے دیا جلائے
پہنچتی مندر کی سیڑیوں پے
تو بیٹھ جاتی وہیں پر آکے
وہ اپنے اندر کے مندروں میں رکھے خداؤں کو بھولے پن میں سجود کرتی
وہ نیلگر کو نا دیکھتی تھی اک آنکھ بھر کے
وہ روز کہتی تھی نیلگر کو خموشیوں میں
کے اس نگر سے کہیں بھی جاؤ تو یوں نا جانا
کے آنے والے دنوں کی گردش تمہاری بپتا کی قینچی سے میرے دوپٹے کی دھجیوں کو کتر ہی ڈالے
اور میرا درپن نا چھوٹ جائے
میری لرزتی انگلیوں سے
سنبھل کے چلنا