فوری مدد کی اپیل

فوری مدد کی اپیل
میں حالیہ کوٹ لکھ پت جیل اور ماضی میں اڈیالہ جیل کا رہائشی ہوں اور ایک عرصہ سے دل، جگر، تبخیرمعدہ اور بلغمی کھانسی کا مریض ہوں۔بارہا ان امراض کا علاج وطن عزیز میں کروایا۔ اور ہر طرح کی دوا، چورن اور معجون بھی استعمال کر دیکھی۔ باقی سب میں تو کچھ نہ کچھ افاقہ ہوا مگر کھانسی کا عارضہ ایسا تھا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کوئی دو برس ہونے کو ہیں کہ خاکسار اسی سلسلہ میں دوائی لینے ملک سے باہر لندن آیا تھا بلکہ بجھوایا گیا تھا۔ مگر یہاں آ کر میں دوائی کی فکر کیا کرتا؟ مجھے تو الٹا کمائی کی فکر پڑی ہوئی ہے۔

بقول شاعر

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

کیونکہ یہاں اس عاجز کا مستقل زریعہ آمدن کوئی نہیں۔ دوست احباب میں سے کوئی آتا ہے تو کوئی دس پاؤنڈ ، کوئی بیس پاؤنڈ دے جاتا ہے۔ یا پھر جمعہ کی نماز کے بعد راقم جب مسجد کے باہر کھڑا ہوتا ہے تو گلے ملتے ہوئے خالصتاً بہ فضل ربی دوسروں کی جیبوں سے کبھی پانچ اور کبھی دس پاؤنڈ کے نوٹ گر کے میری واسکٹ کی جیب میں آجاتے ہیں۔ جس پر کئی دفعہ میں خود بھی حیران ہوتا ہوں۔ ملنے والوں میں سے بھی ہر کوئی یہ تو پوچھتا ہے کہ میاں صاحب واپس کب جا رہے ہیں۔ مگر اتنی توفیق کسی کو نہیں ہوتی کہ یہ بھی پوچھ لے کہ بھائی واپسی کا کرایہ اور ٹکٹ بھی ہے کہ نہیں؟

یہاں حالت یہ کہ گھر کی دال روٹی کر کے جو قلیل رقم بچ جاتی ہے وہ سرخی پاؤڈر اور فٹنس وغیرہ پہ لگ جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ بھلے وقتوں میں میرے ہونہار بچوں نے جب وہ صرف تین تین سال کے تھے ابا جی مرحوم مغفور کی پنشن سے کمیٹیاں ڈال رکھیں تھیں۔ انہی کمیٹیوں کی آمدن سے بعد ازاں ایون فیلڈ میں پانچ پانچ مرلے کے دو چھوٹے سے فلیٹ یہاں لے لئے تھے ورنہ آج سر پہ چھت بھی نہ ہوتی۔ اور میں لندن ٹیوب میں سو رہا ہوتا۔ یہاں مالی حالات تو تنگ ہیں ہی، کھانے پینے کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں۔ جس کو دیکھو سالا ہمدرد بنا پھرتا ہے اور پرہیزی کھانوں کے علاوہ بات ہی نہیں کرتا۔

پچھلے دنوں ایک ریسٹوران میں نہاری کا آرڈر دیا تو بیرے نے پہلے تو پہچان کر کہا کہ ایڈوانس پیمنٹ کریں۔ اس کے بعد ایک اور ویٹر آیا تو کہنے لگا میاں صاحب آپ بیمار ہیں۔ آپ نہاری کھائیں گے؟ میں نے جل کر کہا نہیں۔ صرف سونگھوں گا۔ وہ نادان خدا جانے کیا سمجھا۔ آدھے گھنٹے بعد نہاری کا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا۔ میاں صاحب سونگھ لیجیۓ۔ میں نہاری کے خوشبو سے ایک لمحہ کے لیے مست کیا ہواء، وہ پیالہ اٹھا کر چلتا بنا۔اور میرے ہاتھ سے نہاری بھی ایسے ہی گئی جیسے حکومت گئی تھی۔ اب حالت یہ کہ جیب میں ٹکا نہیں اور روزگار کی کوئی صورت نہیں اور دل کی کیفیت یہ کہ دل کرتا ہے کہ جیسے تیسے بھی ہو، جلد از جلد وطن واپس پہنچ کر اپنی بیرک میں رونق افروز ہوں۔ بقول شاعر

یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی کوئی بات نہیں

انسان کم ازکم اپنی مرضی کے کھانے تو کھا لے۔ مگر شدید مالی مشکلات اور رجعت قسمت کا شکار ہوں۔ میرا پاسپورٹ عدم ادائیگی واجبات کے باعث زائید المدت ہو کر کب کا ناکارہ ہو چکا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے حالات پہ قانع اور مطمئن رہنے والا شخص ہوں۔ کسی سے مدد یعنی ڈکٹیشن لینے کو دل نہیں مانتا مگر پھر بھی احباب کے پرزور اصرار پر اپنی بیماری کی کیفیت اور علاج کا خرچ ہمراہ جملہ رسیدوں کے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوست عرب ممالک کو بھیج چکا ہوں۔ اکثر جگہ سے تو جواب ہی نہیں آیا ۔ پچھلے ہفتے ایک قطری بھائی نے جوابی خط لکھا کہ آپ کے حالات سن کر بہت افسوس ہواء۔ خداوند کریم ہمیں ایسے حالات سے بچائے۔ اور ساتھ کہلا بھیجا کہ ہمارا ایڈریس بدل رہا ہے ۔ اب آئندہ آپ نے نہیں آنا، ہم خود آپ سے رابطہ کریں گے۔ دو ایک اور عرب بھائیو نے جوابی لفافے میں ، برادر لا صدقہ، لا خیرات۔

یلّہ حاجی یلہ کا دو حرفی جواب لکھ بھیجا ہے۔ اب میری ساری امیدیں آپ لوگوں سے ہی وابستہ ہیں۔ آپ احباب سے گزارش کرتا ہوں کہ جیسے بھی ہو میری مدد میں تعاون فرمائیں۔ خدارا میرا بھرم رکھیے۔ میرا یقین ہے کہ اس رمضان المبارک اور بکرہ عید میں اگر میرا سیزن پوری طرح لگ گیا تو نہ صرف میرے سفری اخراجات پورے ہو جائیں گے بلکہ چھ مہینے کی دوائی بھی آ جاۓ گی۔ ایک مشکل یہ بہر حال ہے کہ ڈاکٹروں نے اس عاجز کو پیدل، ہوائی، ریل، سڑک اور سمندری سفر سے منع کر رکھا ہے۔ صرف ایک خلائی سفر ہے جس کی اجازت ہے اور طبیعت بھی قدرتی طور پہ اسی طرف مائل ہے ۔مگر اس کے لئے بھی” خلائی مخلوق” کی دوستی اور اس کا تعاون ضروری ہے۔ یہاں ابا جی مرحوم ومغفور کا زمانہ یاد آتا ہے جب راقم الحروف کے خلائی مخلوق کے ساتھ انتہائی برادرانہ تعلقات تھے۔ اور میں خلائی مخلوق سے قدم سے قدم ملا کر یوں چلتا تھا کہ مجھ میں اور خلائی مخلوق میں کو ئی فرق ہی نظر نہیں آتا تھا۔ پھر نہ جانے اس دوستی کو کس کی نظر کھا گئی۔ بقول شاعر

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

بہرحال آپ لوگ دل سے میری مدد کریں ۔اور donation دینے میں ہرگز کنجوسی نہ کریں۔ نیز اس مشکل سفر میں میری کامیابی کی دعا بھی ضرور کریں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن خلائی مخلوق خود میرے پاس آئے گی اور میں بھی جس کا پیا وہی سہاگن گاتے ہوئے خلائی جہاز میں واپس آجاؤں گا۔