فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ توقع کے عین مطابق ہومیوپیتھک نکلی

کمیشن نے وہی کیا ہے جو کسی تابعدار ماتحت کو 'بڑے صاحب' کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ مجھے تب حیرت ہوتی جب یہ رپورٹ اس ملک میں رائج سکرپٹ سے خدانخواستہ کسی قسم کی عدم مطابقت رکھتی۔ خاکم بدہن جب اس میں اصل ذمہ داران، ماسٹر مائنڈز اور منصوبہ سازوں کے نام شامل کر لیے جاتے۔

فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ توقع کے عین مطابق ہومیوپیتھک نکلی

2017 میں راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا۔ اس دھرنے کی وجوہات کی کھوج لگانے کے لیے چند روز قبل سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے اپنی رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی ہے۔

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مطلوبہ مقاصد نہایت کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی ریاست کے کرتا دھرتاؤں کی اس سوچ اور نفسیات کی عین عکاس ہے جو آج سے نہیں بلکہ لگ بھگ 70 برسوں سے اس اصول پر کامل ایمان رکھتے ہیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں ہیں۔ چنانچہ یہ رپورٹ بھی نہایت چابکدستی، مہارت اور نفاست کے ساتھ ریاست کے اصل کرتا دھرتاؤں کو دھرنے کے مکھن میں سے بال کی طرح نکالنے میں کامیاب ٹھہری ہے اور کسی فرض شناس اور مستعد ٹیم کی طرح کمیشن نے تحریک لبیک کے دھرنے کا سارا نزلہ اس وقت کی پنجاب حکومت پر گرایا ہے جسے تب وزیر اعلیٰ شہباز شریف لیڈ کر رہے تھے۔

رانا ثناء اللہ اس وقت پنجاب حکومت کے وزیر داخلہ تھے۔ رپورٹ آنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ سارا ملبہ پنجاب حکومت پر ڈال دینا درست نہیں، حقیقت یہ ہے کہ کمیشن نے اصل نتائج تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انہوں نے اس دھرنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار سے متعلق اگرچہ کھل کر تو بات نہیں کی مگر دبے دبے لفظوں میں یہ کہتے ہوئے اس جانب اشارہ ضرور کر دیا کہ جب تحریک لبیک کا احتجاج لاہور میں منظم ہو رہا تھا تو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پنجاب حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ان مظاہرین کو لاہور میں روکا جائے گا تو لاشیں گریں گی، بہتر یہی ہے کہ انہیں راولپنڈی آنے دیا جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر آرام سکون سے بات چیت کی جائے۔ رانا ثناء اللہ نے یہ بھی کہا کہ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں اس وقت مرکزی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو تحریک لبیک کے اعتراضات پر تحقیقات کر رہی تھی۔ اگر یہ رپورٹ جلد منظرعام پر آ جاتی تو لبیک قیادت دھرنا ختم کرنے پر راضی ہو چکی تھی مگر پھر نجانے کیوں ایسا ہوا کہ یہ رپورٹ آج تک سامنے نہیں آ سکی۔ اور پھر دھرنے کے شرکاء میں پاک فوج کے اہلکاروں کی جانب سے پیسے بھی بانٹے گئے تھے جو قابل مذمت اقدام تھا۔

رانا ثناء اللہ بھی بہت بھولے ہیں۔ تحریک لبیک کے دھرنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اس وقت کے ڈی جی سی جنرل فیض حمید کے کردار سے متعلق ایسے باتیں کر رہے ہیں جیسے یہ کسی انکشاف پر مبنی ہوں۔ بھائی اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کا پتہ سبھی کو ہے مگر یہ باتیں کرنے والی تھوڑی نا ہیں! دیکھیں آپ کے سامنے دھرنا کمیشن نے بھی تو اتنی احتیاط سے رپورٹ تیار کی ہے کہ غلطی سے بھی کہیں اس طرح کی بات رپورٹ میں شامل نہیں ہونے پائی۔ جب ساری ریاستی مشینری اس سچ کو چھپانے پہ کمربستہ ہے تو رانا صاحب آپ کے اس بیان کو کون گھاس ڈالے گا؟

فیض آباد دھرنا کمیشن کی اس رپورٹ پر کسی اور کو بھلے حیرانی ہوئی ہو مگر مجھے تو بالکل یہ توقعات کے عین مطابق نظر آئی ہے۔ ہمارے ملک میں آج سے پہلے جتنے کمیشن بنے، ان میں سے صرف انہی کمیشنز کی رپورٹس کو دن کی روشنی دیکھنی نصیب ہوئی جو اسی قسم کی ہومیوپیتھک تھیں، یعنی جن میں 'نقصِ امن' کا کوئی خطرہ نہیں تھا یا یوں کہیں کہ ان میں ریاست کے اصل مالکان کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس سے انہیں کسی قسم کی پریشانی لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دھرنا کمیشن میں شامل تینوں صاحبان وسیع انتظامی تجربے کے مالک ہیں۔ انہوں نے نہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی رپورٹ تیار کی ہے جس میں ایک اور واقعے کی ذمہ داری سب سے آسان ہدف یعنی جمہوری حکومت پر ڈال دی گئی ہے۔ انہیں بھی اندازہ تھا کہ اگر ہم نے کہیں جنرل فیض اینڈ کمپنی وغیرہ کا نام شامل کر دیا تو پھر ہماری رپورٹ بھی دبا دی جائے گی۔ اس سے قبل حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ یہی کچھ نہیں ہوا؟ اوجھڑی کیمپ دھماکے کی رپورٹ کس نے دیکھی؟ کارگل جنگ سے متعلق حقائق سرکاری سطح پر کبھی سامنے لائے گئے؟ بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے شہید کر دی گئیں، آج تک دو جمع دو چار والی تحقیقات کے بعد کوئی رپورٹ سامنے آ سکی؟ آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا، درجنوں معصوم بچے خون میں نہلا دیے گئے، سرکاری سطح پر کھوج لگوا کر کبھی اعلان کیا گیا کہ فلاں فلاں ملوث تھا؟ ماضی ایسا ہو تو پھر کون سا کمیشن 'نو گو ایریا' کی طرف جانے کی گستاخی کرے گا؟ اور اگر کرے گا بھی تو جنہوں نے آج سے پہلے اس قوم کو لکڑ پتھر بھی ہضم کروا دیے، ان کے سامنے ایک آدھ کمیشن کی 'پریشان کن' رپورٹ کسی کھیت کی مولی سے زیادہ کیا اوقات رکھے گی؟

میرے جیسا عام آدمی بھی جانتا ہے کہ پچھلی دہائی میں ریاستی سطح پر پاکستان کے نظام میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی اس میں فوج کے کتنے ڈی جی آئی ایس آئی، کتنے ڈی جی سی اور کتنے آرمی چیف ملوث تھے، مگر نہیں پتہ چلتا تو ان جیسے کمیشنوں کو نہیں چلتا۔ مثلاً اب کون نہیں جانتا کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے اور ہنستے بستے ملک کو پچھلی دہائی کے آغاز میں کچھ ایڈونچر پسند فوجی افسران، بعض فرض شناس جج صاحبان اور گروہی مفاد کی حفاظت کرنے والے کچھ دیگر طاقتور لوگوں نے 'تبدیلی مارکہ' سیاسی جماعت کے حوالے کرنے کا پورا پورا منصوبہ بنایا۔ دھرنے کروائے گئے، ایمپائر کی انگلی کا انتظار ہوتا رہا، ڈان لیکس پہ ہنگامہ کھڑا کیا گیا، پانامہ لیکس کا تماشہ رچایا گیا اور پھر وہ مقصد حاصل کر لیا گیا جس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

اگر مجھے اس بات کی سمجھ ہے تو حیرت ہے کہ کمیشن ان باتوں سے کیوں غافل ہے کہ تحریک لبیک کو اسی 'رجیم چینج آپریشن' میں ایک مہرے کے طور پر کھڑا کیا گیا، اسے طاقت کے ٹیکے لگائے گئے اور منتخب حکومت کے خلاف دھرنے کروا کر راتوں رات اس کی عوامی مقبولیت بڑھائی گئی، کس لیے؟ ن لیگ کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے۔ یہ سب کیوں ہو رہا تھا؟ 'امت مسلمہ کے عظیم لیڈر' کو لانے کے لیے۔ تو اس گرینڈ پلان میں تحریک لبیک کا بھی ایک اہم کردار تھا جو اس نے ادا کیا یا یوں کہیں کہ اس سے یہ کردار ادا کروایا گیا۔ اس کا ثبوت چاہیے تو 2018 والے انتخابات کے نتائج دیکھ لیں اور مجموعی ووٹ بینک کے حساب سے دیکھ لیں کہ دو ڈھائی سال قبل بننے والی مذہبی سیاسی جماعت کا حاصل کردہ ووٹوں کی درجہ بندی میں کون سا نمبر تھا، کن کن حلقوں سے اسے ووٹ پڑا اور جو ووٹ تحریک لبیک کو پڑا وہ اس سے پہلے کس جماعت کو پڑتا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ جنرل فیض اینڈ کمپنی نے تحریک لبیک نامی گائے کو پال پوس کر اس لیے بڑا کیا تاکہ عین لڑائی میں جب ضرورت پڑے گی تو اس پالتو گائے کا دودھ ہینڈسم لیڈر کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو طاقت بخشے گا؟

کمیشن نے وہی کیا ہے جو کسی تابعدار ماتحت کو 'بڑے صاحب' کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ مجھے تب حیرت ہوتی جب یہ رپورٹ اس ملک میں رائج سکرپٹ سے خدانخواستہ کسی قسم کی عدم مطابقت رکھتی۔ خاکم بدہن جب اس میں اصل ذمہ داران، ماسٹر مائنڈز اور منصوبہ سازوں کے نام شامل کر لیے جاتے۔ مگر رپورٹ دیکھ کر مجھے تسلی ہو گئی کہ راوی نے ایک مرتبہ پھر چین ہی چین لکھ چھوڑا ہے، ملک میں اس رپورٹ کے بعد بھی طاقت کا توازن برقرار رہے گا، ان کے لیے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کی گئی جن کے ہونٹوں میں قومی سلامتی کی بانسری اور ہاتھوں میں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا چورن ہے۔

قاضی صاحب بھی معروف یونانی فلسفی افلاطون کی طرح مثالیت پسند ہیں اور کسی 'ورلڈ آف آئیڈیاز' کے باسی ہیں۔ ان کے بارے میں لگتا ہے کسی اور ہی سیارے سے آئے ہیں اور غلطی سے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ ایسی تصوراتی باتیں کرتے ہیں جیسے انہیں اس ملک کے سسٹم کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ سب دوسری طرف بھاگ رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اکیلا مخالف سمت میں جاؤں گا۔ بھائی جس بلی کو تھیلے میں سے نکالنے کی بھاری ذمہ داری آپ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا چاہ رہے ہیں، آپ کو یہ کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس ملک میں ایک بہت بڑا اور بہت بااثر ایسا طبقہ موجود ہے جس کی تمام گیم محض تب تک ہی جاری ہے جب تک بلی تھیلے کے اندر ہے۔ بلی باہر تو گیم ختم۔ تو جب اتنے سارے لوگ دن رات اس پہرے پر مامور ہیں کہ انہوں نے بلی کو باہر نہیں آنے دینا تو آپ اکیلے کیا کر لیں گے؟ قاضی صاحب کو بھی مان لینا چاہیے کہ ان جیسے تخیل پرست لوگوں کو ہمارے جیسے ملکوں میں سوائے دل شکستگی کے اور کچھ نہیں ملتا۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔