بی ایل اے، بھائی آپ سے نہ ہو پائے گا!

بلوچ مسلح تنظیمیں، بی ایل اے، بی ایل ایف و دیگر، آزادی کے پرکشش نعرے پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی خواہشمند تھیں، ان کے ہاتھ میں عوام کی قابل ذکر قیادت نہیں آئی۔ وہ ہمیشہ حاشیہ پر رہتی آئی ہیں۔ وہ بلوچ عوام سے اپنی غیر متنازعہ اور آہنی قیادت کا دعویٰ تسلیم کرائیں! یہ کام ان مسلح تنظیموں سے نہ ہو پایا۔

بی ایل اے، بھائی آپ سے نہ ہو پائے گا!

یہ ایک عام سا اتوار کا دن تھا۔ خستہ اور بیزار کُن۔ شام رات کی تاریکی کا راستہ صاف کرنے کیلئے سیاہی مائل کروٹیں بدل رہی تھی۔ خبروں کو بڑا یا چھوٹا بنا کر پیش کرنے والے نیوز ڈیسک پر چہل پہل معمول سے کم تھی۔ کمپیوٹر سیکشن، پرنٹر اور ٹونر کے نہ ختم ہونے والے دائمی مسائل سلجھانے میں مصروف تھا۔ روزنامہ توار کے ایڈیٹر خادم لہڑی، اس روز، ایک نوجوان کو ساتھ لیے ملنے آئے تھے۔ کشیدہ قد دکھائی دیتا نوجوان تھا، وہ فوٹو گرافروں کی واسکٹ، جس میں بہت ساری جیبیں ہوتی ہیں، پہنے ہوئے تھا۔ نوشکی کے رہائشی اس نوجوان سے میں اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ کسی فوٹو گرافر کے ہنستے، مسکراتے تاثر سے بھرپورچہرے، جو ہولناک حادثات اور واقعات کی عکاسی کرتے وقت بیش تر اوقات مددگار ثابت ہوتے ہیں، کے برعکس اس نوجوان کا چہرہ تاثرات سے عاری، سخت، نظریاتی استادوں جیسا لگ رہا تھا؛ ایک ایسا معلم جو نالائق شاگردوں سے پُر کلاس میں داخل ہو، یہ جانتے ہوئے کہ اِن میں سے کوئی بھی شاگرد اس علم کا ذرہ تک بھی حاصل نہ کر پایا، جو اس نے پایا ہے۔

'یہ بشیر زیب ہیں'۔ خادم لہڑی نے ہم سے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

دفتر میں کوئی بھی اس نام سے آشنا نہیں تھا، نہ ان کو پہچانتا تھا لہٰذا اتوار کا یہ دن، روزنامہ توار کے دفتر میں اس وقت، کسی کیلئے کوئی یادگار لمحہ بنے بغیر خاموشی سے گزر گیا۔ برسوں بعد جب وہ بلوچ لبریشن آرمی کا سربراہ بنا، میرے پاس ان کی بس ایک یاد رہ گئی تھی، ان کی فوٹو گرافروں والی واسکٹ کی یاد۔ اکثر و بیش تر فوٹوگرافروں کی پیشہ ورانہ واسکٹ کو، انقلابی خیالات سے سرفراز نوجوانوں میں، غلط فہمی سے گوریلا جنگجوؤں کی جیکٹ سمجھ کر پہننا عام بات رہی ہے۔ کبھی کبھار، حادثات اور واقعات اپنے پیش آنے کی ساعتوں میں فوری، اپنے تادیر یا دوررس اثرات ظاہر نہیں کرتے۔ اتوار کی اس شام کو بھی ناخوشگوار یاد بننے میں کئی سال ثابت قدمی کے ساتھ صبر کرنا تھا۔

واسکٹ کے باعث یاد میں بس جانے والی یہ شام، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسلام آباد دھرنے کے موقع پر، 16 سال بعد پھر لوٹ آئی۔ جب پاکستان کی سالمیت سے قربت رکھنے والے متنازعہ صحافی ماہ رنگ بلوچ سے بی ایل اے پر جانبدارانہ تفتیش اور بے رحم پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ وہ بی ایل اے کی نمائندہ نہیں ہے۔ کوئٹہ سے اسلام آباد، لاپتہ افراد کا پتہ معلوم کرنے گئی تھی۔ وہ، پوچھ گچھ کرنے والے صحافی، یہ حقیقت جانتے ہی تھے۔ درحالیکہ بی ایل اے، ادھر نائی و نانبائی، ادھر مزدور پر بے سمت بندوق چلانے کے باعث بلوچ مسئلہ کی کمزور کڑی بن چکی ہے، لہٰذا بلوچ لبریشن آرمی پر، ہر بلوچ سے پر اصرار بازپرس کرنا جانبدارانہ صحافت کا سستا کھیل بن گیا ہے۔ بلوچستان ایک کالونی ہے، ایک نوآبادی، جہاں ریاست کے تشدد پر، جس میں لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا بھی شامل ہے، انگلی اٹھانا مشکل ہے۔ لاپتہ افراد کے حق میں، پاکستانی ذرائع ابلاغ پر، بات چیت معقول نہیں سمجھی جاتی۔ ریاست کو ملکی سالمیت کے سامنے چھوٹے موٹے انسانی بحرانات کے موضوعات پسند نہیں، صحافی جو عوام تک سچ پہنچانے کے آئیڈیل مقام پر بیٹھنا چاہتے ہیں، وہ عسکری قیادت کی دلچسپی اور اپنی سرفرازی کے مشترکہ راز جاننے میں ماہر ہو چکے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بلوچ علاقوں میں جنگ کی پیدا کردہ تخریب کاری چھپائے نہیں چھپتی۔ بلوچستان میں سلامتی کے نام پر پوشیدہ جنگ نے تصویروں کی ایک المناک گیلری قائم کی ہے، گمشدہ لوگوں کی چلتی پھرتی باتصویر گیلری۔ ہر قیمتی تصویر اپنے پیچھے ایک بے بس ترجمان چھوڑ چکی ہے، جو اس کی گمشدگی کی معلومات اور ساعتیں ہر روز اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ سوال کرنے پر وہ آپ کو بتاتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس گمشدگی کی عمر کتنی بڑھی ہے۔ بچوں کی باپ کی شفقت سے محرومی اور بے پناہ و بے آسرا ہونے کا ڈراؤنا وقفہ کتنا طویل ہوا ہے۔ سمی اور علی حیدر بنگلزئی کے بعد، اپنے لاپتہ باپ کو تلاش کرتے، ان کیمپوں میں اب بے شمار مزید بچے ہوش سنبھالنے لگے ہیں۔ یہ تصویریں جب کھیچنی گئی تھیں، ان کی عکاسی کے وقت اپنے پیشے میں مہارت رکھنے والے کسی نامی فوٹوگرافر کی عرق ریزی شامل نہیں تھی۔ یہ ساری تصاویر اپنے ماضی کے وقت میں عام تصویریں تھیں۔ جب ریاستی تشدد بے مہار ہوتا گیا، تب کاغذ پر محفوظ ان چہروں نے رفتہ رفتہ مل کر ایک بڑی گیلری بنا لی، گمشدگی کے تند و تیز باد و باراں کا شکار بننے والوں کی گیلری۔ ان کی اہمیت، ان کی حقیقت کے پیش نظر، کسی ماہرانہ تصویر کشی کی نمائش میں رکھے نمونے سے زیادہ لگتی ہے۔ ان میں زندہ چہرے قید ہیں کیونکہ اب تک ان کی موت کا سرکاری اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ہر چہرہ اپنی موت پر گیلری سے غائب ہو جاتا ہے۔ اس نمائش کو کیا نام دیا جائے؟ گمشدگان کی یاد پر اصرار یا گمشدگان کی یاد کو مٹانے سے انکار۔

14 سال قبل، اپریل کا آخری ہفتہ چل رہا تھا، جب خاتون پروفیسر ناظمہ طالب کو، 27 اپریل، 2010 کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان کیلئے یہ وہ وقت نہیں تھا جب قیادت ماہ رنگ، سمی دین محمد و در بی بی کے ہاتھ میں ہو۔ ان خواتین کی جرات کے سامنے پرتشدد ذرائع کو غیر مقبول ہونے، اور بندوق کے بھرم کو پسپا کرنے کیلئے بلوچوں کو 10 سال مزید انتظار کرنا تھا۔ بلوچ سیاست میں، خیالات پر گرجدار بندوق اور اونچے سنگلاخ پہاڑ کے جادو کا اثر ہنوز باقی تھا۔ اس خاتون معلم کے نفرت انگیز قتل کی سیاسی کارکنان نے مذمت نہیں کی۔ تشدد کے ماحول میں یہ قتل ایک ردعمل تھا! مسلح تنظیموں کے سحر میں گرفتار یا خوف کے زیر اثر یا نفرت کے شکار اکثر سیاسی کارکنان نے بیش تر مواقع پر یہی جواب دیا۔ ناظمہ طالب کا قتل فراموشی کی گہری کھائی میں ابھی نہیں پہنچا تھا کہ پروفیسر صبا دشتیاری ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں قتل ہوا، ٹھیک اس قتل کے ایک سال دو ماہ بعد، یکم جون 2011 کو۔ بندوق کی نالی سے سیاسی میدان میں توپ چلانے والی مسلح تنظیموں کے مقابلے میں، تشدد پر کس کے اختیار کو جائز قرار دیا جائے؟ بڑے تشدد کی، جس نے تشدد کے چھوٹے چھوٹے، مذہبی، نسلی اور گروہی، مراکز قائم کئے یا ردعمل میں نفرت انگیز پرتشدد کارروائیاں کرنے والے تشدد کی مذمت کی جائے؟

بلوچ خواتین کی سیاست نے مسلح تنظیموں کی نسبت قدرے بہتر کامیابی حاصل کی۔ وہ ادھر ادھر بے سمت بندوق بازی نہیں کرتیں، بسیں نہیں روکتیں۔ نسلی بنیاد پر مسافر اتار کر، عام پنجابی کو قتل نہیں کرتیں۔ کون سی سیاسی قوت کیا کر رہی ہے، لوگ حقیقت ضرور سمجھتے ہیں۔ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے بلکہ ایک عسکری ریاست ہے جس کو ہمہ وقت غداروں، دہشت گردوں، کافروں، چوروں اور ڈاکوؤں کا خوف تراش کر دلوں میں بٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی قید و بند میں رہنے والا ہر شہری جانتا ہو گا کہ آپ اگر بلوچ ہیں، آپ کو دہشت گرد اور ریاست کیلئے خطرہ ثابت کیا جائے گا۔ آپ اگر سندھی ہیں، آپ کو ڈاکو ہی سمجھا جائے گا۔ آپ اگر پختون ہیں، آپ کو سکیورٹی کیلئے خطرہ اور انتہا پسند طالبان قرار دیا جائے گا۔ آپ اگر کرسچین ہیں، آپ کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ آپ اگر قادیانی ہیں، خود کو مسلمان سمجھنے کا مجرم پائیں گے اور اگر آپ شیعہ ہیں، پھر تو آپ یقیناً کافر ہی ہوں گے۔

بلوچستان کیلئے، یہ وقت کے، سفاک بننے سے قبل کا ذکر ہے۔ وہاں ریاستی تشدد نے اب تک اپنا نقاب اتار نہیں پھینکا تھا۔ بلوچ مسلح تنظیمیں، بی ایل اے، بی ایل ایف و دیگر عوام میں، آزادی کے پرکشش نعرے پر، مقبولیت حاصل کرنے کی خواہشمند تھیں، ان کے ہاتھ میں عوام کی قابل ذکر قیادت نہیں آئی۔ وہ ہمیشہ حاشیہ پر رہتی آئی ہیں۔ وہ بلوچ عوام سے اپنی غیر متنازعہ اور آہنی قیادت کا دعویٰ تسلیم کرائیں! یہ کام ان مسلح تنظیموں سے نہ ہو پایا۔

حالات ساکت نہیں رہتے، کروٹیں بدلتے ہیں، سال بہ سال مسخ لاشوں میں اضافہ، گمشدگیوں کی بڑھتی تعداد اور انسان کی بے توقیری کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ مسلح تنظیموں کی مقبولیت، دو دہائیوں میں، کم ترین سطح پر پہنچی۔ بلوچ کیس کا ناک نقشہ، فدائی کے نام پر موت کے گھاٹ اترنے کی خواہش، مزدور کشی اور بے سروپا تنظیمی دھڑے بندیوں سے مسخ ہو چکا تھا۔ مایوسی کے ان وقتوں میں ماہ رنگ، سمی دین محمد، در بی بی، مولوی صبغت اللہ اور گلزار دوست غیر متنازعہ عوامی رہنما قرار پائے۔ بلوچ عوام کی رائے عامہ میں، اس سے پہلے، اتنی گہری اور دوررس تقسیم، کون کس کے ساتھ ہے، کون کہاں کھڑا ہے؟ کبھی دیکھی نہیں گئی تھی۔ بلوچ سیاست، جو فطرت کے آسرے پر تنہا چرواہے کی طرح تھی، پہاڑوں کی تنگ گھاٹیوں کی پناہ گزینی سے باہر نکل آئی۔ بی ایل اے یا دیگر مسلح تنظیموں کی نسبت نئی قیادت گذشتہ سالوں کے تلخ تجربات، قابل ذکر سوجھ بوجھ اوراپنی سیاسی مہارت سے مثبت اور سود مند اثرات مرتب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔