شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کے 36 ویں یوم شہادت پر ان کی قومی و وطنی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ ایک تاریخ ساز کردار، ترقی پسند، انسان دوست، قوم پرست رہنما، جمہوری ذہن اور ترقی پسندانہ افکار کے مالک تھے۔ ساتھیوں کے نزدیک انہیں فکری اور نظریاتی استاد کا درجہ حاصل تھا۔ ان کی سیاسی سوچ و فکر، نظریات و تصورات اور اپروچ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ شہید نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سکول سے کیا۔ مارکس، لینن، اینگلز کی نظریاتی کتابوں کا غور سے مطالعہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں اور دوستوں کی شعوری طور پر رہنمائی بھی کرنے لگے۔
1978 میں کراچی میں بی ایس او (عوامی) کے چوتھے کونسل سیشن میں مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں بی ایس او اور بی ایس او (عوامی) کے دونوں دھڑوں کا انضمام ممکن ہوا۔ ان کے جذبے اور ایمانداری کے سبب بلوچستان کی تمام جمہوری، ترقی پسند، محب وطن اور سامراج دشمن قوتوں کو متحد کرنے، بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی تحریکوں کے ساتھ جوڑنے اور قومی تحریک کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ مربوط کرنے کا عمل وقوع پذیر ہوا۔ شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ وہ واحد شخص تھے جن کو بی ایس او کے مرکزی کونسل سیشنوں میں دو مرتبہ صدارت کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔
شہید بلوچ قومی تحریک سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ اس نے اپنی مختصر سی عمر میں مظلوم انسانیت اور بین الاقوامی تحریکوں کے لئے بہت کچھ کیا۔ انہیں علمی، نظریاتی، تحریری و تقریری، فنی و تخلیقی، غرضیکہ زندگی کے تمام پہلووُں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے بچپن ہی سے ادبی لٹریچر کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بلوچی ادب میں کافی کچھ تخلیق کیا۔ ان کو اردو، انگریزی اور براہوی زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے زندگی کے کسی موڑ پر بھی ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس سے تحریک کو گزند پہنچنے کا خدشہ ہو۔ مظلوم و محکوم عوام کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے قومی جمہوری جدوجہد کا انتخاب کیا۔ وہ مارکسزم اور لینن ازم پر 'اندھا عقیدہ' رکھنے کے بجائے اسے ایک سائنسی علم سمجھتے تھے اور اس علم کی روشنی میں اپنی بدنصیب قوم کی بدحالی اور استحصال سے نجات کا راستہ تلاش کرتے تھے۔
شہید روزمرہ کی زندگی میں سادگی پسند تھے۔ اسی طرح تحریر و تقریر میں بھی سادہ زبان استعمال کرتے تھے تاکہ ان کی باتیں لوگ اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔ جس طرح کہ بہت سے انقلابی لیڈر انقلابی اصطلاحات استعمال کرتے تھے وہ ہرگز ایسا نہیں کرتے تھے جس سے لوگوں کو مفہوم سمجھنے میں مشکل ہو بلکہ ان کو جو کہنا ہوتا وہ روزمرہ کی زبان میں بیان کرتے جس سے لوگوں کو سمجھنے میں ناصرف آسانی ہوتی بلکہ لوگ ان کی باتیں بڑے اشتیاق سے سنتے تھے۔ تنگ نظر، انتہا پسند نظریات و رجحانات کا ان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس کی جدوجہد اور سوچ محدود پیمانوں و تنگ دائروں کی قیدی نہ تھی۔ بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک میں رہنے والے سندھی، پشتون کو بھی محکوم سمجھتا تھا۔ ان کے حقوق کی بات کرتا تھا اور ان کے جدوجہد کی حمایت بھی کرتا تھا۔ شہید کی زندگی، جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں جتنا لکھا اور پڑھا جائے کم پڑ جائے گا۔
مختصر یہ کہ 2 مئی 1988 کا سیاہ ترین دن جب شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ کو اس کی اپنی ہی کتابوں کی دکان پر کلاشنکوف کی گولیوں کی بوچھاڑ سے بے دردی سے شہید کر کے سچائی کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کی شہادت بلوچستان میں ایک عظیم مقرر، ایک عظیم مدبر، ایک عظیم انقلابی رہنما کی شہادت ہے۔ آج بلوچ عوام اور بلوچستان جس صورت حال سے دوچار ہیں، اسلام آباد محلاتی سازشیں رچا کر بلوچستان میں سیاسی عمل کی بیخ کنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اُتر کر بلوچ سیاسی کارکنوں و رہنماوُں کو ماورائے عدالت اغوا کر کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلوچ ساحل و وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر بلوچ عوام کو سیاسی، معاشی، ثقافتی استحصال کی جانب دھکیل کر بلوچ کے وجود و تاریخ کو مسخ کرنے پر لگا ہے۔ غیر سیاسی، غیر جمہوری قوتوں، سمگلر اور ڈرگ مافیاز، کرمنلز کو عوام پر زبردستی مسلط کر کے قومی جدوجہد کا راستہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس گھمبیر صورت حال میں ہم سمجھتے ہیں کہ تمام قوم پرست سیاسی تنظیموں کو اس ضمن میں شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کے قول 'اتحاد، جدوجہد آخری فتح تک' پر عمل پیرا ہو کر مشترکہ پالیسی و حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی اور ایک وسیع جامع متفقہ سیاسی حکمت عملی کے توسط سے ریاستی سازشوں کا مقابلہ کر کے اسے ناکام بنانا ہو گا۔ سماجی ناانصافی، سماجی عدم برابری، قومی غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ بلوچ یکجتہی پر منحصر ہے۔ ہمیں آپسی چپقلش و اختلافات سے نکل کر اپنے عظیم تر قومی مفاد کی خاطر اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے کر ایک مضبوط پلیٹ فارم تلے اکٹھا ہونا ہو گا۔
انتہائی افسوس اور تکلیف کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج شہید فدا احمد کی فکری اور نظریاتی اساس کو غلیظ پارلیمانی سیاسی جدوجہد کے نام گورکھ دھندے میں پھنسا دیا گیا ہے۔ شہید کے فکری اور نظریاتی ساتھیوں نے ملک میں جمہوری اداروں کی بالادستی اور قومی حقوق کی جدوجہد کے نام پر اپنی فکری اور نظریاتی سیاسی اداروں کو ناصرف ابن الوقت کاروباری لوگوں اور قبائلی نظام کے جابر شکنجوں کے سامنے رکھ دیا بلکہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی اداروں کی بیخ کُنی میں اہم کردار ادا کیا۔ طویل پارلیمانی جدوجہد میں ہر سطح پر ناکامی کے بعد بھی یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ بلوچ قومی سیاست اس نام نہاد جمہوری پارلیمانی سیاست میں بلوچ وسائل، بلوچ قومی بقا، قومی تشخص اور سرزمین کا دفاع ممکن بنائیں گے۔
بار بار ناکامیوں کو برداشت اور عدم تشّدد کا فلسفہ کہہ کر نا صرف بلوچ قومی سیاست میں نظریہ اور فکری سیاست سمیت سیاسی اداروں کی بیخ کُنی کی جا رہی ہے بلکہ بدترین نظام میں رہ کر اپنی فکری سیاسی اساس کی بھی بلی چڑھائی جا رہی ہے۔ قومی سیاست کے نام پر ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنا کر ہم نے بہت تجربے کیے۔ دو دو چار چار سیٹیوں کی حکومتوں میں رہ کر نا صرف ہم نے قومی وقار اور بلوچ قومی سیاست کا جنازہ نکالا بلکہ سیاسی کارکنوں کو موقع پرستی، ابن الوقتی اور پیداگیری کی بدترین دلدل میں ڈال کر قومی جدوجہد کی سیاسی سمت کا حُلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔
ریاست نے بلوچ نیشنل ازم کی بیخ کُنی کے لیے بلوچستان میں غیر سیاسی قوتوں، منشیات فروش، کاروباری شخصیات، ریاستی لاڈلوں، ڈیٹھ سکواڈ سمیت معاشرے کی وہ بدترین لوگوں کو عوامی نمائندے کے نام پر بلوچ پر مسلط کر دیا جو ہمیشہ بلوچ قومی تحریک اور سیاسی جدوجہد کے سامنے ریاست کے آلہ کار بن کر رکاوٹ پیدا کرتے رہے۔ ایک طرف نام نہاد قبائلی غنڈے اور دوسری طرف منشیات کے بیوپاریوں کو ساتھ ملا کر پارلیمان میں بٹھایا گیا ہے۔ اسی صورت حال میں چار پانچ خیرات کی سیٹوں کے ساتھ اگر پارلیمان میں کوئی سیاسی پارٹی بلوچ قومی سیاسی اساس اور قومی وسائل کے دفاع کا خواب دیکھ رہی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔ جب تک بلوچ اپنی صفوں کو دُرست کر کے ایک مضبوط، منظم اور طاقتور قومی جماعت کی تشکیل کی طرف نہیں جائے گا، ہماری قومی سیاست اور ہماری نیشنل ازم کا حال سندھ کی قومی اور نیشنلسٹ جماعتوں جیسا ہو گا۔ ہم سال میں ایک دفعہ کسی پریس کلب کے سامنے جمع ہو کر 'بلوچ قومی جدوجہد زندہ باد' کے نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔
آج شہید فدا احمد کی شہادت کے دن بلوچ سیاسی کارکنوں کے لیے عہد و پیمان کا دن ہے۔ آئیے مل کر بلوچ کو ایک منظم قومی جماعت دیں۔ جدوجہد کے تمام ذرائع اور تمام سوچ کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد رکھیں۔ پارلیمان ہو یا پارلیمان کے باہر، صرف بلوچ قومی حقوق، وسائل کے دفاع پر توجہ رکھیں۔ قومی تشخص و بقا کی خاطر اپنی انا، ضد اور ذاتی مفاد کو ایک سائیڈ پر رکھیں۔ ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔ شہید فدا احمد اور شہید مولا بخش دشتی کی فکری اساس کو زندہ رکھیں۔ حبیب جالب اور ڈاکٹر یاسین بلوچ کی نظریاتی جدوجہد کے ضامن بنیں۔ اپنے سیاسی اصولوں پر کھڑے ہو کر اور وقتی مفاد کو ٹھوکر مار کر بلوچ سیاسی کارکنوں کو ایک مضبوط اور منظم پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں۔ قومی جدوجہد کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر سیاسی پالیسی بنائیں۔ مشکل حالات کا مقابلہ کریں ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔