کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کر دیا۔ 

وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487 ارب روپے ہو گا، خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 990ارب روپے ہو گا، دفاع کیلئے 1370 ارب روپے اور قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے 3 ہزار 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کم سے کم تنخواہ 20 ہزار مقرر کی گئی ہے، پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کا آغاز ہوتے ہی اپوزیشن بینچوں سے شور شرابہ شروع ہوگیا اور نعرے بازی کی گئی۔ بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم معیشت کے بیڑے کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لے آئے ہیں، مشکلات تو درپیش ہیں مگر معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کردی گئی ہے۔


بجٹ کا خاکہ


کل ریونیو کا تخمینہ 6573 ارب روپے ہے جس میں FBR ریونیو 4963 ارب روپے اور Non-tax ریونیو 1610 ارب روپے شامل ہے۔

NFC ایوارڈ کے تحت 2874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو فراہم کیا جائے گا،

Net وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے رکھا گیا ہے

کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7137 ارب روپے لگایا گیا ہے

بجٹ خسارہ 3437 ارب روپے تک رہنے کو توقع ہے جو کہ جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے۔

وسائل کی شعبہ وار تقسیم:

احساس پروگرام:

احساس پروگرام کے لئے پچھلے سال 187 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جنہیں بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

سبسڈی

توانائی، خوراک و دیگر شعبوں میں سبسڈی  کے لئے 179 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔، مختلف شعبوں کے لیے سبسڈی کی مد میں 501 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، رواں سال اس مد میں 400 ارب روپے مختص تھے، سبسڈی کا 30 فیصد پاور سیکٹر کے لیے ہے۔

ہائیر ایجوکیشن

ہائیر ایجوکیشن کے لئے کل رقم 64 ارب روپے رکھی گئی ہے۔ اس سلسلہ میںHEC  کی Allocation گزشتہ سال 57 سے 64 ارب روپے کیا گیا۔

تعیمراتی شعبہ: 

تعمیراتی شعبے میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ اخوت فاؤنڈیشن کی قرضہ حسنہ اسکیم کے ذریعے مکانات کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کئے گئے۔



صوبائی گرانٹس

وفاقی بجٹ میں چاروں صوبوں،گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور مختلف وفاقی اداروں کے لیے 994 ارب روپے کی گرانٹس جاری کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ این ایف سے کے تحت صوبوں کو گرانٹس دی جائیں گی۔

قومی شاہراہیں اور ریلوے

پاکستان ریلوے کے لئے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ NHA کے لئے 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ریلوے ایم ایل 1 کے لئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں

کامیاب جوان پروگرام:

کامیاب جوان پروگرام کے لئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

وفاقی ہسپتال

وفاقی حکومت کے زیر انتظام  ہسپتالوں کے لئے 13 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

آرٹسٹ ویلفئیر فنڈ

آرٹسٹ ویلفئیر فنڈ کے لئے 1 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

زراعت 
مالی بجٹ میں  زراعت کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

پبلک سیکٹر ڈویپلمنٹ پروگرام 

پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے مختص۔

کرونا ویکسین

کرونا کے تدارک کے لئے ویکسین کئ درآمد پر 1.1 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے. جون دو ہزار بائیس تک دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی.



سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں 10 فیصد اضافہ و کم از کم اجرت

بجٹ تقریر میں وزیر خرانہ کا کہنا ہے کہ یکم جولائی سے تمام وفاقی ملازمین کو 10% ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا،وفاقی ملازمین کی پنشنز میں 10% اضافہ کیا جائے گا، گریڈ 1 سے 5 تک کے ملازمین کو integrtated Allowance کی مد میں 450, 900 روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن کے لیے 10 ارب روپے اضافے کے ساتھ 480 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

بجٹ کے اندر کم از کم اجرت 20000 روپے مختص کی گئ ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔بینکنگ ٹرنزیکشنز سے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔

 ترقیاتی بجٹ 

ذرائع کے مطابق مجموعی ملکی ترقیاتی بجٹ کا حجم 2 ہزار 105 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، سول گورنمنٹ کے لیے 510 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے جو رواں مالی سال 488 ارب روپے تھے۔

دفاعی بجٹ

دفاع کے لیے 35 ارب روپے اضافے کے ساتھ ایک ہزار 330 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ، رواں سال دفاعی بجٹ کا حجم ایک ہزار 295 ارب روپے تھا۔



قرض کی ادائیگی کیلئے مختص بجٹ

قرض اور اس پر سود کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 3 ہزار 105 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، رواں سال اس مد میں 2 ہزار 920 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصولیوں کا حجم 5 ہزار 705 ارب روپے رکھا جا رہا ہے،

پی آئی اے اور سٹیل ملز کے لئے فنڈز

دوسری جانب پی آئی اے کے لیے بیس ارب روپے اور اسٹیل ملز کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی ٹیکسوں میں سے صوبوں کو 707 ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔ وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 3411 ارب روپے ہوگا۔

اینٹی ریپ فنڈ

وزیراعظم کی خصوصی ہدایات پر اینٹی ریپ فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس کے لئے ابتدائی طور پر 100 ملین کی رقم رکھی گئی ہے جس میں بعد میں اضافہ کیا جائے گا۔

فون کالز ، انٹرنیٹ ڈیٹا پرنئے اور مزید ٹیکسز

‏حکومت نے ریونیو حاصل کرنے کے لئے 3 منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جارہی ہے. اس سے آبادی کے ایک بڑے حصے پر معمولی ٹیکس نافذ ہوگا.

نئے ڈیموں کی تعمیر

بجٹ میں داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ  کے لیے 57 ارب روپے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ نیم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنےکی تجویز کی گئی ہے۔

بجٹ تقریر پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ورثے میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈالر کا تاریخ خسارہ ملا، 25 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، اس عرصے کے دوران برآمدات میں منفی 0.4 فیصد جبکہ درآمدات کا اضافہ 100 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو مصںوعی طور پر کم رکھا گیا تھا اور تمام قرضے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے جس کی وجہ سے مالیاتی حجم میں شدید عدم توازن پیدا ہوا، اسٹیٹ بینک سے قرضوں کا حجم 70 کھرب روپے کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا جو گزشتہ 5 سالوں میں سب سے زیادہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرضے لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے اور 2016 کے آخر میں بڑھتے ہوئے 20 ارب ڈالر ہوگئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری 2 سالوں میں بڑی تیزی سے کم ہوکر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس دور میں بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی داستان ہے جس کے بعد معشیت کی بحالی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔ اس کے باوجود 5.5 شرح نمو کا ڈھول پیٹا گیا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لیے گئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ساری ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم حقیقی منظر پیش کررہے ہیں، قبرستان میں کھڑے ہو کر قبروں کو کھودنے کے بجائے قوم کو روشنی کی طرف لے جایا جائے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں تھوڑا وقت لگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے میں خوفزدہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے 20 ارب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2019 کو 800 ملین ڈالر کا سرپلس میں تبدیل کردیا گیا۔