آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے کاروباری افراد سے حالیہ ملاقات کی خبروں نے ذرائع ابلاغ عامہ میں جگہ بنائی تاہم ایک رسمی تفصیل کے کچھ خاص جاننے اور پڑھنے کو نہیں مل سکا۔ تاہم بزنس ریکارڈر نے اس ملاقات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق تاجر و کاروباری برادری نے حکومت کی معاشی خاص کر ٹیکس پالیسیوں سے متعلق اپنی شکایات سامنے رکھی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آرمی چیف نے اس ملاقات میں کہا ہےکہ آج کے دور میں کسی بھی ملک کی سلامتی کا دار و مدار معاشی سلامتی میں ہے اور پاکستان کا کاروباری طبقہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور انکو ہر طرح سے سپورٹ کیا جائے گا۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر اور آل پاکستان ریسٹورنٹ اونرز ایسوسی ایشن کے صدر چاولہ نے بتایا کہ پاکستان آرمی نہ صرف ملکی سلامتی کو براہ راست (عسکری طور پر ) دیکھتی ہے بلکہ وہ ملک کے دیگر پہلووں کو دیکھتے ہیں۔ ہم نے معیشت سے متعلق اپنی آرا ان تک پہنچائی ہیں۔ آرمی چیف کو دی گئی سب سے اہم تجویز ٹیکس نیت بڑھانے سے متعلق دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے ٹیکس کو بڑھایا نہ جائے بلکہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔
ذرائع کے مطابق کاروباری شخصیات نے آرمی چیف کو ان تجاویز سے متعلق بھی آگاہ کیا جو کہ ان کی جانب سے وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور متعلقہ شخصیات اور عہدہداران کو ایف بی آر کے ٹیکس سٹرکچر کو ٹھیک اور آسان کرنے کے لئے دی گئی ہیں۔ آرمی چیف کو بتایا گیا کہ ایف بی آر افسران کو ٹیکس وصولی سے متعلق صوابدیدی اختیارات سے پاک کرنے ایف بی آر اصلاحات ہی ٹیکس نیٹ کو بڑھا سکتی ہیں۔ آرمی چیف پر کاروباری شخصیات نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس بار 1300 ارب کا جو ریوینیو براہ راست ٹیکس کے ذریعے نہیں بلکہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے اکھٹے کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف سے کہا گیا کہ انتظامیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سول بیوروکریسی میں تبادلے قابلیت کے معیار پر ہونے چاہئیں جیسے کہ عسکری اداروں میں ہوتی ہیں نہ کہ بلاجواز۔ اس ضمن میں کاروباری افراد نے مذہبی امور کی وزارت سے وزارت فنانس میں بیوروکریسی کے افسران کے تبادلے کو ایک غیر منطقی تبادلے کی مثال کے طور پر پیش کیا۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے نمائندوں کی جانب سے کی گئی شکایات نوٹ کر لی گئی ہیں جنہیں متعلقہ فورم پر شیئر کیا جائے گا۔ آرمی چیف نے کہا کہ سرکاری کاروباری ادارے جن کو چلانا ممکنات میں سے نہیں ان کی نجکاری ایک اہم تجویز ہے جو ان کے لئے قابل غور ہے جو کہ ان اداروں کی وجہ سے برداشت کیے جانے والے بھاری اخراجات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفد نے آرمی چیف کے سامنے حکومت کی جانب سے ایس ایم ایز یعنی سمال اینڈ میڈیم سائز اینٹرپرائزز کو تجویز کردہ قرضوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 50 ارب روپے کے قریب رقم چند بڑے صنعتی مالکان کو دی گئی ہے جس پر شرح سود صرف اور صرف 1 فیصد ہے۔ ایسی پالیسیاں ترقی پذیر ممالک میں کم اثر و رسوخ کی حامل چھوٹی کاروباری انڈسٹریز کی نمو کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ آرمی چیف نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ کرونا کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والی صنعتوں میں ریستوران صنعت شامل ہے۔
آئی ایس پی آر نے اس بارے میں کیا کہا؟
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے اراکین نے ملاقات کی جس میں آرمی چیف نے تاجروں سے پاکستان میں تجارتی اور صنعتی مراکز کی ترقی کے ساتھ ساتھ علاقائی معاشی ماحول کے ارتقا میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران آرمی چیف نے پاکستان کی معاشی ترقی میں کاروباری برادری کے کردار کو سراہا اور پاک فوج کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق وفد نے پاکستان میں معاشی خوشحالی کے لیے محفوظ اور سازگار ماحول کی فراہمی میں پاک فوج کے کردار اور قربانیوں کا اعتراف کیا۔