عالمی سطح پر رقوم کی منتقلیوں اور آن لائن ادائیگیوں کی امریکی کمپنی ’’ پے پال‘‘ نے حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں اپنی سروسز فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں سیکرٹری آئی ٹی معروف افضل نے انکشاف کیا کہ’’ پے پال‘‘ نے پاکستان میں آنے سے انکار اس لیے نہیں کیا کیوں کہ اسے پاکستان میں کام کرنے سے کوئی مسئلہ ہے بلکہ حقیقت میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس کا داخلی نظام ہی کچھ ایسا ہے جس کے باعث وہ فی الوقت پاکستان میں اپنی سروسز متعارف کروانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس وزارت آٓئی ٹی کے یونیورسل سروسز فنڈ (یو ایس ایف) کے لیے منعقد ہوا جسے استعمال کرنے کا مقصد ملک کے ایسے علاقوں میں ٹیلی کمیونیکیشن اور براڈبینڈ سروسز متعارف کروانا ہیں جو ان سے محروم ہیں یا بہت زیادہ مستفید نہیں ہو رہے۔
’’ پے پال‘‘ کا معاملہ اگرچہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا لیکن کمیٹی اراکین نے وزارت آئی ٹی پر زور دیا کہ’’ پے پال‘‘ سے بھی پاکستان میں اپنی سروسز متعارف کروانے کا مطالبہ کیا جائے۔
اجلاس میں سیکریٹری آئی ٹی جب یہ وضاحت کررہے تھے کہ’’ پے پال‘‘ پاکستان آنے میں کیوں دلچسپی نہیں لے رہی تو سینیٹر میاں محمد عتیق نے کہا، جب تک کمپنی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہوگا تو ’’ پے پال‘‘ کبھی پاکستان کا رُخ نہیں کرے گی۔
سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا، منی لانڈرنگ کا ایک معاملہ بھی ’’ پے پال‘‘ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ’’ پے پال‘‘ کو لازمی طور پر حکومت کا تعاون درکار ہو گا تاکہ اس کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جب وزیر آئی ٹی خالد مقبول صدیقی سے یہ استفسار کیا گیا کہ حکومت جاز اور ٹیلی نار سے لائسنس کی تجدید کے لیے کس طرح 29 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کے بجائے 45 کروڑ ڈالرز مانگ رہی ہے؟ تو انہوں نے کہا، نئی شرائط کے تحت نئی پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے تاہم چوں کہ موبائل آپریٹرز نے لائسنس کی تجدید کی فیس کے معاملے کے حل کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو یہ معاملہ اب عدالت کے ذریعے ہی حل ہو گا۔ ہم یہ معاملہ دیکھ رہے ہیں جو جلد حل ہو جائے گا۔