ضلع مہمند کی تحصیل بائیزئی کے گاؤں شمشا سے تعلق رکھنے والے حاجی دعائی خان پچھلی 6 دہائیوں سے کراچی میں مقیم اور تعمیراتی میٹریل یعنی بلاکس، ریتی بجری، اور سیمنٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں، 1962 میں کراچی معاشی ہجرت اور 12, 13 سال محنت مزدوری کے بعد بھٹو کے زمانے میں خلیجی ممالک روزگار کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے اور پھر 1978 میں واپس آکر اورنگی ٹاؤن میں آباد ہونے والی نئی نئی کچی آبادی فرید کالونی میں زمین خرید کر تعمیراتی میٹریل کی فراہمی کا کاروبار شروع کردیا، جو آج تک چل رہا ہے، اور ان کے بیٹے اسے سنبھال رہے ہیں۔
ان کے 31 سالہ بیٹے حبیب اللہ بتاتے ہیں، “کراچی میں ہمارےآبائی ضلعے سے آئے ہوئے لوگ زیادہ تر تعمیراتی میٹریل کے کاروبار (بلاکس کا تھلہ)، جلانے کی لکڑی(لکڑیوں کا ٹال) یا پک اپ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ جلانے کی لکڑی کے کام کے حوالے سے ہمارے ہاں لطیفہ مشہور ہے کہ مہمندخدا سے دعا کرتا ہے ،’’یا اللہ مجھے ایک خچر اور ایک کلہاڑی دلا دے، رزق میں اپنے آپ ڈھونڈلوں گا۔‘‘ اسی لئے جب وہ شہر آتے ہیں تو محنت مزدوری سے شروع کر کے کچھ سالوں میں آپ اپنے کاروبار کے مالک بن جاتے ہیں.
یہ صرف مہمند کے حاجی دعائی خان کی کہانی نہیں بلکہ پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے شہروں کی طرف معاشی ہجرتیں کرنے والوں کی ایسی ان گنت کہانیاں ہیں، جو یہاں کراچی میں اپنے کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ پھر مختلف قبائلی اضلاع کے لوگ یہاں مختلف کاروباروں سے وابستگی کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں، جیسے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ پر ضلع خیبر کے آفریدی قبائل کی برتری ہے، جو یہاں مختلف بسز کے روٹس سے واضح ہے، یا شینواری نام ہائی ویز پر قائم کھانے کے ہوٹلز کا لازم عنصر ہے، کیونکہ بیف اور مٹن کھانے کے شوقین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی تیار کردہ ڈشز پر کن کی مہارت مسلّم ہے۔
ایسے ہی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محسود یا وزیر قبائل کی ہیوی تعمیراتی مشینری کی ملکیت ایک عام حقیقت ہے، جہاں سڑک پر آپ کو دیوہیکل مشینری یا تعمیراتی میٹریل ریتی بجری یا تارکول لے کر دوڑتے ڈمپر نظر آئیں تو ان گاڑیوں پر لکھے جملے یہ یاد دلاتے ہیں کہ ایسا کوئی محسود جو انہیں دوڑا رہا ہے۔ اسی طرح چھوٹی مزدوری اور ہنر کاری پر آئیں تو باجوڑ کے مزدور کھدائی کے کام میں طاق اور دیگر چھوٹے پیشوں اور کاروباروں سے وابستہ نظر آتے ہیں۔
یہ سلسلہ صرف کراچی میں ہی نہیں، تقریباً پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے، جیسے لاہور میں مقیم باجوڑ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ جو کہ ریڈیمیڈ گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور چین سے مصنوعات براہ راست درآمد کرتے ہیں، درآمد شدہ مصنوعات دکان پر بھی بیچتے ہیں اور باجوڑ ہی سے تعلق رکھنے والے دیگر دکانداروں کو بھی ہول سیل میں فروخت کرتے ہیں۔
مشترکہ علاقائی یا قبائلی پس منظر اور ایک جیسے کاروباروں سے منسلک ہونے کی وجہ ان کا شہروں میں قائم نیٹ ورک آف سپورٹ ہے، جیسے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے آفریدی قبائل اگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں تو اس کاروبار سے متعلقہ امور جیسے قسطوں پر بسز کی فروخت، چھوٹے بڑے قرضوں کی فراہمی، ٹائروں اور دیگر سپیئرپارٹس کی فروخت سے بھی یہی لوگ وابستہ ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=okvE5zNfFRU
لاہور میں مقیم عبداللہ بتاتے ہیں، ’’اپنے علاقے کے لوگوں سے کاروبار کا فائدہ یہ ہے کہ ان سے لین دین اور ادھار وصولی میں آسان ہوتی ہے، اور خدانخواستہ کوئی تنازعہ آ بھی جائے تو معاملات باہمی طور پر طے پا جاتے ہیں، بعض مواقع پر جرگہ مصالحت کرا دیتا ہے۔‘‘
پشاور شہر میں پھیلے چائے خانوں یا ڈھابوں کے کاروبار سے عموماً ضلع مہمند کے لوگ وابستہ ہیں، اوران کے ناموں میں مہمند کا سابقہ یا لاحقہ موجود ہوتا ہے، ان میں موجود سٹاف کا بھی عموماً یہی پس منظر ہوتا ہے، کیونکہ ان کیلئے یہ ایک طرح کی آن جاب ٹریننگ ہے، جہاں وہ کام اور کاروبار سیکھ کر کل کلاں کو کسی نئی جگہ اپنا چائے خانہ کھول لیتے ہیں، جیسے خیبر سپرمارکیٹ کے مہمند ہوٹل میں کام کرنے والا رئیس اپنے لوئل کسٹمرز کو بتاتا رہتا ہے کہ وہ عنقریب اپنا ڈھابہ کھول رہا ہے۔
شہروں میں رہتے ہوئے بھی باہمی طور پر سماجی رشتوں یا رسمی اور غیر رسمی تنظیموں (علاقائی انجمنوں کی یا جرگوں کی صورت میں) کے توسط سے باہم ربط و ضبط اور مشترکہ کاروباری پس منظر کے تحت معاملات کا نتیجہ تھا جب قبائلی اضلاع میں بدامنی کی لہر آئی اور لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی تو جہاں ان کو ڈھیر ساری مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا، وہاں ایک بڑی تعداد نے شہروں میں موجود انہی اعزاء و اقربا کی جانب رجوع کیا، جہاں ان کا روزگار اور کاروبار کے نئے طریقوں سے تعارف ہوا، وہا ں نوجوانوں کو تعلیمی مواقع بھی میسر آئے، ساتھ ہی بہت سی سہولیات جو شہروں میں دستیاب ہیں لیکن وہ اپنے آبائی علاقوں میں ان سے محروم ہیں، ان سے بھی روشناس ہوئے۔
اسی لئے حالیہ برسوں میں ان اضلاع میں امن و امان کی بحالی کے بعد در آنے والی تبدیلی کی لہر میں قانون کی عملداری کے مؤثر نظام کے مطالبات کے ساتھ وہاں لوڈشیڈنگ کے خاتمے، تعلیم و صحت کے وسائل کی دستیابی کے ساتھ اطلاعات کے جدید ذرائع انٹرنیٹ اور ان کے لئے درکار موبائل تھری جی نیٹ ورک کے مطالبات بھی دہرائے جاتے آرہے ہیں۔ پھر تعمیرنو کے عمل میں جہاں رہائشی آبادیوں کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی پر زور تھا وہاں روزگار اور کاروبار کے مواقع اوران اضلاع کی معاشی بحالی بھی ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا دوتہائی حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی توانائیوں کو بروئے کار لانا اہم چیلنج ہے، ملک کی معاشی صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اور بیروزگاری کی شرح ایک اندازے کے مطابق 5 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔ اس تناظر میں قبائلی اضلاع کو دیکھیں تو وہ باقی ملک سے بھی پیچھے ہیں، جہاں تعلیم کی شرح بھی باقی ملک کی نسبت کم ہے، ان اضلاع میں یہ 33 فیصد کے قریب جبکہ خواتین میں تو 12 فیصد ہے، پاکستان میں تعلیم کی اوسط شرح 58 فیصد ہے جبکہ خواتین میں یہ شرح 47 فیصد ہے۔ اسی طرح ان اضلاع میں بیروزگاری کی شرح (یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ۲۰۱۷ کے مطابق) 11 اعشاریہ 8 فیصد ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=uOpQc-ckGZc&t=13s
ان اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے تحت جہاں، یہاں حکومتی انتظام میں ان کی شراکت کیلئے وفاق کے بعد صوبائی سطح پر ان کی نمائندگی اور مقامی حکومتوں کے قیام کی جامع حکمت عملی پیش نظر رکھنی ضروری ہے وہاں معاشی بحالی کے اقدامات بھی اتنے ہی ضروری ہیں، اسی لئے جب میران شاہ و میر علی کے بازاروں کے تاجروں کی معاشی بحالی کے لئے 7 اعشاریہ 6 ارب روپے کی رقم تقسیم کی گئی تو ساتھ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور نوجوانوں کو اس طرف راغب کرنے کیلئے کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت قرضوں کی فراہمی کیلئے قبائلی اضلاع کیلئے تین ارب روپے مختص کیے گئے، اس کے ساتھ صوبائی سطح پر چلنے والی انصاف روزگار سکیم کے تحت بھی سال 2019 اور 2020 میں ایک ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں پیشہ ورانہ تعلیم کیلئے 20 کروڑ، ہنرمند افراد کیلئے 10 کروڑ روپے، ہنر مند خواتین کیلئے 2 کروڑ روپے، اور دیگر کیلئے 68 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے مالی سال کی پہلی ششماہی کے اعداد وشمار اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کیلئے مختص کردہ ایک ارب روپے میں سے 60 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بلاسود قرضوں کی مد میں تقسیم کیے جاچکے ہیں۔
اس ضمن میں پہلی ڈیڈ لائن دس جنوری 2020 تک سات ہزار آٹھ سو پینتالیس (۷۸۴۵) درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے دوہزار سات سو پچھتر (2775) کامیاب امیدواروں کے درمیان فرسٹ کمز فرسٹ کی بنیاد پر 62 کروڑ روپے کی رقم تقسیم کی گئی، پھر درخواست گزاروں کی تعداد دیکھ کر مختص شدہ رقم میں 50 کروڑ روپے مزید کا اضافہ کر دیا گیا، جو عنقریب تقسیم کر دیے جائیں گے۔
پشاور میں واقع کارخانو بازار ضلع خیبر کی تحصیل جمرود سے متصل ہے، وہ درآمدی سامان کے حوالے سے مشہور ہے، جہاں فارمل اور انفارمل روٹس سے آنے والی مصنوعات کی بڑی بڑی مارکیٹس ہیں، جس میں الیکٹرانکس سے لے کر گارمنٹس اور کاسمیٹکس دستیاب ہوتی ہیں، اور پورے صوبے میں یہاں سے سپلائی ہوتی ہے۔ یہاں کام کرنے والےعزیراللہ کا تعلق لنڈی کوتل کے گاؤں نیکی خیل سے ہے، وہ گزشتہ چھ سال سے کاسمیٹکس مصنوعات کے سیلز مین کے طور پر کام کررہے ہیں۔
عزیر بتاتے ہیں، ’’میں ابھی میٹرک کا طالبعلم تھا کہ والد محترم کی وفات کے بعد مجھ پر گھریلو ذمہ داریاں آن پڑیں، اس لئے مجھے یہاں کام شروع کرنا پڑا، اور یہ کام کرتے ہوئے مجھے چھ سال ہوگئے ہیں، میرے اپنے آبائی ضلع میں چھوٹی مارکیٹس اور دکانوں کو سپلائی کا مناسب نظام موجود نہیں ہے، اور ان دکانداروں کو خریداری کیلئے یہاں آنا پڑتا ہے، اس لئے جب میں نے حکومت کی جانب سے کاروبار کیلئے قرضوں کی فراہمی کا سنا تو میں نے بھی چھوٹے پیمانے پر کاسمیٹکس مصنوعات کی سپلائی کے کاروبار کی خاطر تین لاکھ قرضے کی درخواست جمع کرا دی، اور اب اس کی منظوری کا منتظر ہوں‘‘
یہاں کارخانو مارکیٹ میں گزارے سال، تجربے اور مراسم اور روابط کے حوالے سے بہت اہم ہیں، لیکن کاروبار کیلئے سرمایہ درکار ہے، جو اگر حکومتی سکیم کے تحت فراہم ہوجائے تو بہت جلد میں اپنے کاروبار کا مالک ہوں گا، ابھی بارہ سے پندرہ ہزار کماتا ہوں، تو پھر تیس سے پینتیس ہزار تک کمالیا کروں گا۔‘
” چې څه مونږ پخپله شو، څه راسره حکومت مرسته وکړي، نو. زمونږ مشکلات به اسان شي''
(کچھ ہم خود کرلیں، کچھ ہمارے ساتھ حکومت کا تعاون ہو، تو ہماری زندگی سہل ہوجائے گی)۔