Get Alerts

لاہور؛ پولیس کا جاہمن میں واقع احمدیہ عبادت گاہ کے مینار توڑنے کا عندیہ

تھانہ ہیئر کی جانب سے یہ عندیہ لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ 1984 سے قبل تعمیر کی گئی احمدیہ عبادت گاہوں کے میناروں کو گرانا یا ان میں توڑ پھوڑ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

لاہور؛ پولیس کا جاہمن میں واقع احمدیہ عبادت گاہ کے مینار توڑنے کا عندیہ

لاہور میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز 9 کے علاقے میں واقع پولیس سٹیشن ہیئر کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے کہ پولیس علاقہ جاہمن میں واقع 1970 میں تعمیر کی گئی احمدیہ عبادت گاہ کے میناروں کو مسمار کرنے جا رہی ہے۔

تھانہ ہیئر کی جانب سے یہ عندیہ لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ 1984 میں توہین مذہب قانون کے ضمن میں آرٹیکل 298 بی اور 298 سی کے اطلاق سے قبل تعمیر کی گئی احمدیہ عبادت گاہوں کے میناروں کو گرانا یا ان میں توڑ پھوڑ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ عبادت گاہیں ایسے وقت میں تعمیر کی گئی تھیں جب ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا اور قانون بن جانے کے بعد 100 سال پرانی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا یا ان کے مینار توڑنا خلاف قانون کارروائی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 31 اگست 2023 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ 1984 سے قبل بنائی گئی احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے۔ مذکورہ تحریری فیصلے کے پیراگراف 16 میں جسٹس طارق سلیم شیخ نے نہایت وضاحت کے ساتھ قرار دیا تھا کہ ایسی احمدیہ عبادت گاہیں جو توہین مذہب قانون کے اطلاق سے قبل تعمیر کی گئی تھیں ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں گرانا یا نقصان پہنچانا خلاف قانون عمل ہو گا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ مینار صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں، مسلمانوں نے خود میناروں کا تصور یونانی واچ ٹاورز اور بابل کی تہذیب میں موجود ٹاورز سے لیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ جب احمدیہ عبادت گاہ پر واضح انداز میں ' بیت الذکر' لکھ دیا جاتا ہے تو اس عبادت گاہ کی مسلمانوں کی مساجد سے مشابہت کا امکان کم رہ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ مینار کے ڈیزائن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے؛ لاہور ہائی کورٹ

اس کے علاوہ تھانہ ہیئر کا یہ اعلان سپریم کورٹ کے جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مذہب اور فرقے کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔

پولیس حکام خود جاہمن میں واقع احمدیہ عبادت گاہ کے میناروں کو نقصان پہنچائیں گے تو وہ لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کی بھی خلاف ورزی کریں گے۔

یاد رہے 1974 میں آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور 1984 میں توہین مذہب قانون کو مزید سخت بناتے ہوئے احمدیوں پر شعائر اسلامی اختیار کرنے کو بھی منع قرار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو پابند کیا گیا کہ وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، اپنے عقیدے کو اسلام کا نام نہیں دے سکتے، مسلمانوں کی عبادت گاہوں جیسی عبادت گاہیں نہیں بنا سکتے اور عبادت کے لیے پکارے جانے کو اذان نہیں کہہ سکتے۔