عمران خان حکومت کا کڑا امتحان، بڑی تبدیلی کی تیاریاں شروع

عمران خان حکومت کا کڑا امتحان، بڑی تبدیلی کی تیاریاں شروع
افغانستان کے حوالے سے خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان میں بڑی سیاسی تبدیلی کے لئے کام شروع ہو چکا ہے، عالمی طاقتوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ہٹا کر پاکستان میں اینٹی طالبان حکومت کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ عمران خان کے طالبان کے حامی ہونے کے تاثر کی بنا پر وہ نئی علاقائی صورتحال میں فٹ نہیں ہوتے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان میں نئے انتخابات کے ذریعے ماسوائے پی ٹی آئی ملک کی تمام سیاسی قوتوں کے اشتراک سے قومی اتفاق رائے کی حکومت کا قیام عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔

خطے کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں طالبان کا غلبہ یا ممکنہ طالبان حکومت اور پاکستان میں بھی طالبان دوست حکومت برقرار رہنا امریکی مفادات کے منافی ہے، کیونکہ اس سے خطے میں بھارت دشمن رجعت پسند قوتوں کو بالعموم تقویت ملتی ہے اور کشمیر میں تحریک آزادی میں بالخصوص تیزی آ جانے کا خدشہ ہے۔ جو انڈین مفادات کے منافی ہے جبکہ امریکہ، چین کے خلاف سب سے اہم اتحادی ہونے کے باعث خطے میں بھارتی مفادات کو تحفظ دینے کا خواہاں ہے۔ اس کے علاوہ چین، روس، ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور امریکہ کی مخاصمت کو بڑھاوا ملے گا اور پاکستان میں طالبان دوست حکومت کی مدد سے نئی صورتحال میں یہ سب مل کر خطے میں امریکی اثر و نفوذ کے خاتمے کی جانب اہم پیش رفت کر سکتے ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان میں طالبان مخالف حکومت کا قیام امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خطے میں افغانستان کا مسئلہ امریکی سی آئی اے کی ایما پر برطانوی سیکرٹ سروس "ایم آئی 6" ہینڈل کر رہی ہے، اسی لئے اس نے پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی اعلیٰ قیادت سے رابطے بڑھا دیے ہیں جبکہ دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن میں شامل کم و بیش تمام سیاسی قوتیں، حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی (پاکستان میں) طالبان مخالف کیمپ میں شامل بتائی جاتی ہے۔

مبصرین کے خیال میں افغانستان میں بھی سیاسی صورتحال تیزی سے بدلنا شروع ہو گئی ہے جس کی بنیاد سوموار کو وہاں بیک وقت 2 صدور کی حلف برداری کروا کے ڈال دی گئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی اگرچہ ڈاکٹر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے اور واشنگٹن نے عبداللہ عبداللہ کی حمایت سے انکار کیا ہے۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے عبداللہ عبداللہ کی حلف برداری کی تقریب بھی ہونے دی کیونکہ جنرل رشید دوستم، سابق افغان صدر حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار کے علاوہ شدت پسند حزب وحدت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کو تسلیم کرنے سے انکاری اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے دوسری طرف صرف افغان آرمی صدر اشرف غنی کے ساتھ ہے جس کے بارے خدشہ ہے کہ افغانستان میں صورتحال تبدیل ہوتے ہی افغان فوجیوں کی اکثریت وردیاں اتار کر طالبان سے جا ملے گی۔ دوسری طرف منگل کے روز افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی شروع ہونے پر مغربی اور مشرقی سرحدوں پر پاکستان کی مسلح افواج کو ہائی الرٹ پر رکھ دیا گیا کیونکہ منگل کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے 2 دستوں کا انخلا شیڈول تھا۔