سپریم کورٹ آف پاکستان کا یکم مارچ کا فیصلہ جس میں صدر پاکستان اور گورنرز کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کی ہدایت کی گئی تھی، جس انداز میں اس ازخود نوٹس کی کارروائی آگے بڑھی اور جس طرح عدالت عظمیٰ کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم عوام کے سامنے آئی، ان عوامل کے باعث سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تنازعات میں گھر چکا ہے۔
ازسر نو تشکیل پانے والے پانچ رکنی بنچ میں شامل اختلاف کرنے والے ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جمال خان مندوخیل نے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے غیر معمولی دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہی معاملہ متعلقہ صوبائی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہو۔
اس سے قبل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بنچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعتراض اٹھایا کہ 'فریقین کی جانب سے لگائے گئے عجیب و غریب الزامات اور غیر متزلزل سیاسی مؤقف سپریم کورٹ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ وہ حق پرستی کے اصول کو تقویت دینے کے لیے عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرے'۔ اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس آفریدی نے درخواستوں کو مسترد کر دیا تاکہ 'آئین کے تحت متعین کی گئی ہائی کورٹس کی درجہ بندی کی عدالتی ڈومین کی خلاف ورزی نہ ہو'۔
جسٹس اطہر من اللہ جنہیں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے بنچ سے الگ کر دیا تھا، ان کے اختلافی نوٹ میں بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کے مؤقف کی تائید کی بازگشت سنائی دی۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس کا حکم 'کھلی عدالت میں ہونے والی کارروائی اور حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا'۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ 'صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں' اور یہ کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ 'یقینی طور پر قبل از وقت' تھا۔
وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو 4-3 کا فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے بعض ججوں کو، جنہوں نے حتمی پانچ رکنی بنچ کی اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا، کو جان بوجھ کر بنچ سے الگ کر دیا گیا تھا تاکہ مخصوص فیصلے کو 'دوبارہ سے ترتیب دیا' جا سکے۔
اس فیصلے سے متعلق کی جانے والے سیاست سے قطع نظر، دو جج صاحبان جنہوں نے خود کو لارجر بنچ سے الگ کر لیا تھا، دونوں جج عمران خان اور ان کی پارٹی کے حق میں مبینہ تعصب کی وجہ سے عوام کی نظروں میں رہے ہیں۔ اس تناظر میں ان کا بنچ سے الگ ہونا ایک غیر معمولی پیش رفت تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے والی پولرائزیشن نے ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی حکام کو بھی متاثر کیا ہے۔ مقدمات کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل اور ان میں 'تبدیلی'، اگرچہ سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق موجودہ چیف جسٹس کا مکمل استحقاق ہے، اس استحقاق پر بھی سوال اٹھائے گئے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسی دن جاری کیے گئے تحریری حکم میں اس عمل پر کھل کر سوال اٹھایا جس دن لارجر بنچ نے الیکشن سے متعلق فیصلہ سنایا تھا۔
پچھلے کچھ سالوں میں جو معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں تھے، سپریم کورٹ ان معاملات کا ثالث بن گیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت کے ابتدائی مرحلے میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹا کر اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے کر خود کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے شراکت دار کے طور پر پیش کیا تھا۔ نواز شریف کو دی جانے والی اس سزا کو بعد میں موجودہ چیف جسٹس صاحب نے 'ڈریکونین' قرار دیا تھا۔ باہم دست و گریبان نیم جمہوری اداکاروں نے بھی اپنی طاقت سے دستبردار ہوتے ہوئے عدالتوں کو ایسے معاملات سلجھانے کی بھی راہ دکھائی جنہیں سیاسی میدان میں بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عدالتوں پر اب 'پیچھے کی طرف جھکنے' اور ایک مخصوص سابق وزیر اعظم کی منشا کے مطابق فیصلے جاری کرنے کے لیے قانون کو مسخ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
پنجاب کے نامزد وزیر اعلیٰ کے خلاف ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے سابق اراکین صوبائی اسمبلی کی نااہلی سے متعلق تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ ' بنچ فکسنگ' کے الزامات اس وجہ سے اٹھائے گئے ہیں کہ سب سے اہم سیاسی مقدمات کو مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ کے سامنے ہی رکھا جاتا ہے۔ سینیئر ترین سپریم کورٹ ججوں کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ایسے بنچوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کا سیاسی نظام چھ سال کے طویل نیم آمرانہ دور کے بعد دوبارہ سے ٹھیک ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پارلیمنٹ کو موجودہ وقت کے بڑے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ایک حتمی فورم کے طور پر سامنے آنا چاہئیے تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایسے تمام معاملات کی سربراہی عدالتوں کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ جزوی طور پر اس کا تعلق ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پیچھے ہٹ جانے کے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنے سابقہ 'حامی' کے زبردست دباؤ کے پیش نظر ایک فعال کھلاڑی کے طور پر نہیں نظر آنا چاہتی۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی سیاسی اداکاروں کا پارلیمنٹ پر اعتماد کم ہی نظر آنا تھا۔ وہ سب راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے 'گیٹ نمبر 4' کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ جی ایچ کیو کیا سوچ رہا ہے کیونکہ ’حافظ ڈاکٹرائن‘ پر کام ابھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان موجودہ آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں لیکن آرمی چیف ان سے ملاقات کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ظاہر کر رہے۔
اسی دوران عمران خان گرفتاری سے بچنے میں کامیاب ثابت ہو رہے ہیں اور انہوں نے چیف جسٹس سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت طلب کر لی ہے کیونکہ ان کے بقول ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ عمران خان کسی بھی غیر یقینی صورت حال میں آئی ایس آئی کے ایک سینیئر افسر پر انہیں قتل کرنے کی سازش کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ عمران خان کی یہ روش بے مثال ہے کیونکہ ان سے پہلے والے وزرائے اعظم ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے والے پلوں کو جلانے کے بارے میں زیادہ محتاط رہتے تھے۔
عمران خان کے اعتماد اور بہادری کا سرچشمہ دو بنیادوں پر استوار ہے؛ پہلا ایک گہرے تفاوت پر مبنی معاشرے کے بااثر طبقوں کے اندر انہیں زبردست حمایت حاصل ہے اور دوسرا انہیں 'نظام' کے اندر سے مسلسل حمایت حاصل ہے۔ دوسرے مظہر کی ایک مثال وہ غیر معمولی ریلیف ہے جو انہیں اور ان کی جماعت کو اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے مل رہا ہے۔
تاریخی لحاظ سے مستقل اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج اور عدلیہ نے ہمیشہ متحد ہو کر کام کیا ہے۔ موجودہ بحران میں ان دونوں کے بیچ ایک واضح خلیج نظر آ رہی ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں 'نظام' کے اندر پیدا ہونے والی تقسیم کے مزید شدید ہونے کا امکان ہے۔ اس رسہ کشی میں جو جیتے گا مستقبل کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہوگی۔
رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔