پہلے فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے اقدامات کی توثیق کے لئے عدلیہ کو استعمال کرتی تھی۔ جسٹس افتخار چودھری کے دور سے عدلیہ نے خود کو اسٹیبلشمنٹ سمجھنا شروع کر دیا۔ ججز حضرات کی آڈیو لیکس نہ ہوتیں تو سپریم کورٹ نے اب تک کوئی نہ کوئی فیصلہ دے دینا تھا۔ ان کو مزید آڈیوز آنے کا ڈر ہے۔ ان کی بنچ فکسنگ نہ پکڑی گئی ہوتی تو فیصلے جاری رہنے تھے اور اب تک کسی نہ کسی پر توہین عدالت لگ چکی ہوتی۔ یہ کہنا ہے توصیف احمد خان کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کو دوبارہ لانچ کیا جا رہا ہے۔ پیچھے سے فون نہ گیا ہو تو کوئی بھی ان کے جہاز میں سوار نہیں ہوتا۔ جہانگیر ترین کا جنوبی پنجاب میں اتنا قد کاٹھ نہیں ہے جتنا ان کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود کا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے بل بوتے پر الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملائیں گے، جہانگیر ترین پر انحصار نہیں کریں گے۔
بیرسٹر اویس بابر نے کہا کہ موجودہ پیش رفت سے پی ٹی آئی کو تو جھٹکا لگے گا مگر ملک کے لئے یہ اچھا نہیں ہو رہا اور عالمی فورم پہ اچھا امیج نہیں جا رہا۔ الیکشن والے فیصلے پر ریویو اگر 13 مئی کو سنا جا رہا ہوتا تو اس کی کوئی اہمیت بھی ہوتی، مجھے لگتا ہے پورا بنچ پیچھے چلا گیا ہے۔ چیف جسٹس محض اب ٹائم گزار رہے ہیں اور اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی طرح ٹھنڈے رہیں گے۔ اسی لئے انہوں نے آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن پہ کوئی ری ایکشن نہیں دیا۔
رپورٹر عمران وسیم نے کہا کہ آج کی سماعت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے شکوے کیے کہ آپ کے لوگ ہمارے خلاف تقریریں کرتے ہیں۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے صعوبتیں برداشت کرنے سے بھاگ گئے ہیں۔ عمران خان کی اپنی انا اور غلط فیصلوں کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا ہے۔ وہ سوچ رہے تھے شاید وہ اسٹیبلشمنٹ کو فتح کر لیں گے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں تھی، کنگز پارٹی تھی۔ ایک سیلیبرٹی کو اوپر بٹھا کر لوگوں کو اس کی تقلید پر لگایا گیا۔ پی ٹی آئی نے پچھلے ایک سال میں جس طرح سیاست کی وہ روایتی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں تھی۔