ریاست کی نظر انداز کردہ پاکستان کی ہزارہ برادری

ریاست کی نظر انداز کردہ پاکستان کی ہزارہ برادری

(کنوارخلدون شاہد)


ہزارہ افراد کون ہیں اور وہ پاکستان میں کیوں رہتے ہیں؟

ہزارہ افراد کی پاکستان میں تعدادکم و بیش 900,000 ہے۔ ان کی اکثریت بلوچستان میں کوئٹہ کے نزدیک رہتی ہے۔ موروثی طور پر ہزارہ افراد ازبک اور ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان افراد کی پاکستان میں موجودگی کا پہلا ریکارڈ پہلی اینگلو افغان جنگ (1839-1842) کے دوران ملتا ہے۔ اس وقت کچھ ہزارہ افراد نے برطانوی افسر، میجر جارج براڈ فٹ، کے دستے میں کھدائی کا کام کرنے کے لیے شمولیت اختیار کی تھی۔ اس برادری کے افراد نے افغان حکومت کی انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے وہاں سے راہِ فرار اختیار کی، اور اُن علاقوں میں آ گئے جو آج پاکستان کا حصہ ہیں۔

 

ظہیر الدین بابر کے دور سے ہزارہ برادری پرظلم وستم کی تاریخ

ہزارہ برادری پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ سولہویں صدی میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ بابر نے اس برادری کو نشانہ بنانے کی وجہ اپنی سوانح عمری، بابر نامہ، میں بیان کی ہے، اور انیسویں صدی کے آخر میں ان کی بھرپور نسل کشی کی وجہ بھی یہی تھی۔ بابر لکھتے ہیں:
"مغربی پہاڑوں میں ہزارہ اور نکدریل قبائل آباد ہیں۔ ان میں سے کچھ مغلوں کی زبان بولتے ہیں۔ شمال مغربی پہاڑیوں میں کافروں کے قبائل ہیں، جیسا کہ کیتور اور گبرک۔ جنوب میں افغان قبائل موجود ہیں۔"
ایسا لگتا ہے کہ مغلوں نے ہزارہ برادری کو کافرستان کے باشندے سمجھا۔ کافرستان افغانستان کا ایک خطہ تھا، اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے، وہا ں کے باشندے قدیم ہندو رسوم و رواج پر عمل کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہزارہ کو سماجی طور پر الگ رکھا گیا۔ پانچ سو سال بعد آج بھی یہی نسلی اور مذہبی تفریق ہزارہ کی نسل کشی کا باعث بن رہی ہے۔

ہزارہ برادری کو افغانستان سے کیوں نکالا گیا؟

دوسری اینگلو افغان جنگ کے بعد افغانستان کے امیر شاہ عبدالرحمٰن خان نے بیسویں صدی میں تمام ہزارہ برادری کو افغانستان سے نکال دیا تو اس برادری نے بلوچستان میں پناہ لے لی۔ یہاں وہ کم و بیش ایک صدی تک امن سے رہے، یہاں تک کہ اسلامی انتہا پسندی نے ایک بار پھر ہزارہ برداری کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔



 

لشکرِ جھنگوی کا لال مسجد کے ساتھ الائنس ہزارہ برداری کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوا

نائن الیون کے بعد القاعدہ اور افغان طالبان نے کوئٹہ میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے۔ لشکرِ جھنگوی اپنے بانی ریاض بسرا کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے قریب ہو گیا۔ اس طرح کوئٹہ شہر شیعہ مخالف جہادی قوتوں کا مرکز بن گیا۔ ان قوتوں کو 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاالحق کے دور میں جہادی سرگرمیوں کے لیے پھولنے پھلنے کا موقع دیا گیا تھا۔
اپنے مخصوص جسمانی نقوش کی وجہ سے آسانی سے شناخت کر لیے جانے والے ہزارہ افراد لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ کا آسان ہدف بن گئے۔ لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ نے اہل سنت والجماعت کا نقاب پہن لیا۔ آج کل ان گروہوں نے اپنا نام "پاکستان راہِ حق پارٹی" رکھا ہوا ہے۔

 

ہزارہ برداری کی نہ ختم ہونے والی ابتلا

اگرچہ ہزارہ برادری پر موجودہ صدی کا پہلا حملہ 2001 میں پودگلی چوک میں ہوا، گذشتہ دہائی میں ان کے قتلِ عام میں تیزی آ گئی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران پانچ سو ہزارہ افراد ہلاک اور چھے سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں جنوری اور فروری 2013 کے دل دہلا دینے والے بم حملے بھی تھے۔ ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ نے لاشوں کی تدفین سے انکار کر دیا، اور احتجاج کے طو پر لاشوں کے ساتھ طویل دھرنا دیا۔



آج پانچ سال بعد بھی ان کے مصائب میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہزارہ افراد کو نشانہ بنانے کا تازہ سلسلہ شروع ہونے پر اس برادری کے افراد نے گذشتہ ماہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے بھوک ہڑتال کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیرِ داخلہ کی یقین دہانی کے بعد اُنہوں نے احتجاج ختم کر دیا۔ وزیرِ داخلہ نے ہزارہ برادری پر حملوں کو "غیر ملکی ہاتھ" کی کارستانی قرار دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ موصوف خود بھی گزشتہ اتوار کو ایک اسلامی انتہا پسند کے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے۔

 

ریاست ہزارہ برداری کی نسل کشی میں کس طرح معاونت کر رہی ہے

ہزارہ افراد کی نسل کشی کی تاریخ اورانتہا پسندوں کے نظریات، جو اہلِ تشیع کو کافر قرار دے کر ہلاک کرنے کی پالیسی رکھتے ہیں، کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاست بھی شیعہ ہزارہ کے قتلِ عام میں ایک طرح سے خاموش سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حقیقت سے غمازی برتنے کی پالیسی کوئٹہ میں داعش کی موجودگی کی تردید کرتی ہے، حالانکہ داعش اور لشکرِ جھنگوی کا مہلک الحاق کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ پر حملوں اور ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔

 

لشکرِ جھنگوی کا بلوچستان میں حملوں کا نیا انداز اور داعش کا کردار

لشکرِ جھنگوی کے طریقِ کارمیں تبدیلی بڑی تعداد میں سڑک کنارے قتل کر کے بھاگ جانے کے واقعات میں واضح ہے۔ اسی انداز میں مقامی مسیحیوں کو بھی قتل کیا جا رہا ہے۔ لشکرِ جھنگوی کے کارکن داعش کی چھتری تلے کام کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ اقلیتیں دونوں گروہوں کا مشترکہ ہدف ہیں۔



داعش کی بلوچستان میں موجودگی کی تردید کی جاتی ہے کیونکہ داعش کی مرکزی قیادت پاکستان میں فعال نہیں۔ یہ بڑھتے ہوئے خطرے کودیکھ کر آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملکی سکیورٹی کی حالت اتنی مخدوش ہو چکی ہے کہ آرمی چیف کو خود شہریوں سے مل کر اُنہیں تحفظ کی یقین دہانی کرانی پڑتی ہے۔

 

سکیورٹی ایجنسیاں اور سیاست دان، دونوں لشکرِ جھنگوی کی فعالیت کے ذمہ دار ہیں

صرف تردید ہی حقیقی ایشو نہیں، بلکہ خوفناک خاموشی کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ سکیورٹی ایجنسیاں خطے میں طالبان اور دیگر تزویراتی اثاثوں کی موجودگی کو اپنے مفاد میں دیکھتی ہیں، اور ضیا دور میں قائم ہونے والے شیعہ مخالف سوچ پھیلانے والے مدرسوں کے فروغ کے علاوہ لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ کو پنجاب میں سیاسی رفاقت بھی حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دیدہ دلیری سے ہزارہ برداری کا خون بہاتے اور قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔
حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) نے 2013 کے انتخابا ت میں بعض حلقوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے لشکرِ جھنگوی اور اہل سنت والجماعت کا تعاون حاصل کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے ایک سال بعد مسرور جھنگوی، جو سپاہِ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کا بیٹا ہے، اور جس نے مختلف تقاریر میں اہلِ تشیع کی نسل کشی کی حمایت کی ہے، نے نہ صرف جھنگ کے ایک حلقے سے ضمنی الیکشن لڑا بلکہ جیت بھی گیا۔



یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس دوران پی ایم ایل (ن) دباؤ میں ہے، اور لشکرِ جھنگوی کے لبادے میں داعش کوئٹہ میں سرائیت کررہی ہے، سول اور ملٹری قیادتیں جہادی گروہوں سے سیاسی مفاد حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ یقیناً اُنہیں جہادی گروہوں کے گھیرے میں آئی ہوئی ایک مظلوم اقلیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔