کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے کثیر تعداد میں موجود شہری نہ صرف بیرونی ممالک جانے کے لئے حامد کرزئی ائیرپورٹ پر موجود ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف بارڈرز پر بھی افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو پاکستان میں پناہ لینے کے لئے داخلے کی کوشش کررہے ہیں.
بلوچستان میں واقع چمن بارڈر پر افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین بھی شامل ہیں مگر اطلاعات یہ آرہی ہے کہ ہزارہ برادری کو پاکستان میں داخلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نیا دور میڈیا کو چمن میں تعینات ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بارڈر پر اس وقت مسائل ہیں اور بارڈر زیادہ وقت تک بند رہتا ہے جبکہ کچھ گھنٹوں کے لئے بارڈر کھول دیا جاتا ہے اور پھر تھوڑی تعداد میں لوگ بارڈر سے اس پار پاکستان آتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بہت سارے مہاجرین رقم دیکر بارڈر کے آس پاس کے علاقوں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر بلوچستان کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں.
چمن کے سرکاری افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایجنٹ اور سیکیورٹی اہلکار پیسے لیکر لوگوں کو بارڈر کے اس پار لاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جن کے پاس پیسے ہیں اور ایجنٹوں کے سہولت کاری سے بارڈر کراس کرلیتے ہیں۔ ان میں ہزارہ بھی ہیں اور دیگر قومیتوں کے لوگ بھی بس جن کے پاس اثر رسوخ یا پیسے نہیں تو اگر وہ ہزارہ ہیں یا دیگر قومیتوں کے لوگ وہ تو یا بارڈر پر مشکلات کا شکار بیٹھے ہیں یا واپس اپنے علاقوں کو جاچکے ہیں۔
بلوچستان میں رہائش پذیر صحافی ارباز شاہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بارڈر 24 گھنٹوں میں 18 گھنٹوں کے لئے بند رہتا ہے اور باقی چھ گھنٹوں میں بہت کم لوگ بارڈر کے اس پار پاکستان آتے ہیں. ارباز شاہ کے مطابق بارڈر پر کئی گاؤں آباد ہیں جہاں سے لوگ غیر قانونی طور پر بھی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
صحافی ارباز شاہ کے مطابق اس وقت تک کوئی ایسی اطلاعات نہیں آئی کہ بارڈر پر ہزارہ برادری کو روکا جارہا ہے بلکہ بارڈر پر سب مہاجرین کے لئے مسائل ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ سینکڑوں کی تعداد میں مہاجرین اس وقت بلوچستان کے سڑکوں پر ڈیرے ڈالے موجود ہیں۔ جن میں ہزارہ بھی ہیں اور افغانستان کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی لیکن ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو گلوکار یا فنکار تھے۔ وہ طالبان کے ڈر کی وجہ سے ملک چھوڑ کر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے چمن کی ضلعی انتظامیہ سے موقف لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔