سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار سے الگ کیے جانے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ میں شکست کھانے سے قبل انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا: میں بتا دینا چاہتا ہوں، اگر مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا"۔ اب وہ اس دھمکی پر پورا اترنے کے لئے ملک میں خانہ جنگی کے خطرات کو ہوا دے رہے ہیں اگر انہیں اگلے چند ماہ میں دوبارہ اقتدار واپس نہ دیا گیا تو۔
حالیہ سالوں میں عمران خان نے اقتدار پر اپنی گرفت معاشرے میں تقسیم اور نفرتیں پیدا کر کے مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب وہ یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ہاتھوں اپنی شکست کو واپس کروانا چاہتے ہیں – خواہ اس کے لئے انہیں آئین میں دیے گئے تمام قوانین کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ان میں سب سے زیادہ پریشان کن ان کا یہ اعلان ہے کہ وہ مئی کے آخر میں اقتدار پر اپنا حق جتانے اور مخالفین کو دھمکانے کے لئے 20 لاکھ افراد لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔
افواہیں ہیں کہ ان کے وفادار ساتھی پارلیمنٹ اور دیگر اہم عمارتوں کا گھیراؤ کریں گے اور شہباز شریف حکومت کو عملی طور پر مفلوج کر دینے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان نے حب الوطنی اور جھوٹ کی آمیزش سے اپنے حامیوں کے جذبات بھڑکائے ہیں اور وہ پہلے ہی اپنے سیاسی مخالفین – جنہیں وہ اب 'غدار' بھی سمجھتے ہیں – سے دو دو ہاتھ کرنے کو تلے ہیں۔ عمران خان کو امید ہے کہ وہ اس جتھے کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر اگلے دو ماہ میں انتخابات کا مطالبہ منوا لیں گے۔ وہ اپنی اس مہم کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیتے ہیں۔
لیکن آزادی کس سے؟ عمران خان کے حامیوں کے مطابق، غیر ملکی مداخلت سے۔ یہ اقتدار میں واپسی کے لئے ان کا بنیادی کلیہ ہے۔ وہ اپنی کارکردگی کے بجائے جو کہ انتہائی خراب تھی امریکی مداخلت کی سازشی تھیوری کو بنیاد بنا کر انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ ان کو بائیڈن انتظامیہ کے حکم پر پاکستانی سیاستدانوں نے امریکی صدر کے مبینہ احکامات ماننے سے انکار پر اقتدار سے نکالا گیا۔
ان کے مقلد جھوٹی خبریں پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں، ٹوئٹر پر فیک اکاؤنٹس سے لے کر بڑی تفصیلی جھوٹی کہانیاں گھڑنے تک۔ عمران خان نے حال ہی میں خود بھی فاکس نیوز پر ٹرمپ نواز تجزیہ کار ربیکا گرانٹ کا ایک انٹرویو ٹوئیٹ کیا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ پاکستان کو لازماً یوکرین کی حمایت کرنا ہوگی اور امریکہ مخالف پالیسیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ لیکن خان صاحب نے بڑے اطمینان سے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ربیکا گرانٹ ذاتی حیثیت میں بات کر رہی تھیں، وہ کوئی واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ کی نمائندہ نہیں۔ پاکستانی تجزیہ کاروں نے عمران خان کی کہانی کا کچا چٹھہ کھول ڈالا۔
حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ کچھ ہی پاکستانی ہیں جو عمران خان کے دعووں پر یقین کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ملک کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت عمران خان کے دعووں کو مسترد کر چکی ہے لیکن اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ بدستور حکومت کے خلاف جو ان کے مطابق امورٹڈ حکومت ہے فنڈ اکٹھے کر رہے ہیں اور ان میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی شامل ہیں، بشمول امریکہ اور برطانیہ کے جو ان کی پارٹی کو فنڈ دیں گے۔ وہ اور ان کے حامی اس واضح منافقت پر قطعاً شرمندہ نہیں۔
ان کے حامی مسلسل اپنے خلاف آنے والی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی یہ پیش گوئی کہ موجودہ سیاسی بحران خون خرابے پر منتج ہوگا خود بخود ہی پوری ہو جائے گی۔ ایک PTI لیڈر نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کے قتل کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، ایک کا دعویٰ ہے انہیں خود کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ عدم استحکام پیدا کر کے عمران خان کے سپورٹر فوج کو عملی طور پر سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔
عمران خان خود بھی بالواسطہ طور پر فوجی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے خاص طور پر اٹھارھویں صدی کے ایک بنگالی فوجی کمانڈر کا نام لیا جو برطانوی فوجوں کے ساتھ مل گیا تھا اور اس دغابازی نے اسے برصغیر کا مشہور ترین غدار بنا دیا۔ سب کو عمران خان کا پیغام سمجھ آ رہا تھا: عمران خان یہ تاثر دے رہے تھے کہ موجودہ فوجی قیادت غدار ہے کیونکہ اس نے عمران خان کے افسانوی غیر ملکی سازشیوں کے خلاف ان کی مدد نہیں کی۔ فوج نے فوراً اس کا جواب ایک بیان کے ذریعے دیا کہ جس میں فوج کو ملک کے سیاسی مباحث میں گھسیٹنے کے خلاف خبردار کیا گیا تھا۔ ( عمران خان نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ ان کی مراد یہاں شہباز شریف سے تھی، فوج سے نہیں)۔
عمران خان ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے حقیقتاً پارلیمان، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا تھا؛ اب وہ فوج کے خلاف بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ملک کے تمام کلیدی اداروں کو چیلنج کر کے انہوں نے پاکستانی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ یہ ادارے اب جوابی کارروائی کرنے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن غیر ملکی فنڈنگ کیس میں جلد فیصلہ دے سکتا ہے جو کہ 2014 سے عمران خان کے خلاف سنا جا رہا ہے۔ حکومت بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن کیسز پر تحقیقات شروع کر چکی ہے۔ ایک سینیئر وزیر نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس کیس کھولنے کے لئے بے تحاشہ شواہد موجود ہیں اور عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان کے خلاف کارروائی شروع ہونے والی ہے۔
9 مئی کو شہباز شریف نے ایک تقریر کی جس میں انہوں نے عمران خان پر الزام عائد کیا کہ وہ اداروں کے خلاف زہر اگل کر جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ "اگر اسے آئین اور قانون کے ذریعے نہ روکا گیا تو خدا نخواستہ یہ ملک شام اور لیبیا جیسا بن جائے گا جہاں شہر آج قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں"۔
پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس وقت بے انتہا تناؤ ہے۔ دعا ہے کہ جمہوری قوتیں موجودہ بحران سے باہر نکلنے کا رستہ تلاش کر سکیں۔
حامد میر نے یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔
حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔