سی پیک، یو ٹرن اور شکستہ حال شیروانی

سی پیک، یو ٹرن اور شکستہ حال شیروانی
"ایک اور جھوٹ بولا کہ جناب چین کا پریذیڈنٹ آ رہا تھا میری دعوت پر، لیکن تحریک انسان کے دھرنے کی وجہ سے وہ نہیں آیا، اوئے جھوٹو، اوئے جھوٹ بولنے والو چین کا صدر تو پاکستان آ ہی نہیں تھا رہا" – عمران خان دھرنے سے خطاب (2014)

"(سی پیک) سے بڑا جھوٹ۔۔۔ شرم اس گورنمنٹ کو آنی چاہئے، کہ انہوں کے کہا جناب وہ انویسٹمنٹ لیکر آئیں ہیں۔ 35 بلین ڈالر، وہ انویسٹمنٹ نہیں ہے قرضہ ہے۔ اور قرضہ ہے 7 فیصد (سود) پر۔" – عمران خان مبشر لقمان کے ساتھ گفتگو (2014)

"سی پیک کے متنازعہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکے اجلاسوں میں سلمان شریف اور شریف خاندان کے افراد شرکت کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کاروباری سودے بازی ہے؟" عمران خان ٹویٹ – (19 جنوری، 2016)

"چینی صدر پاکستان میں 35 ملین لا رہا تھا۔ یہ ایک جھوٹ ہے" – تحریک انصاف آفیشل ٹویٹ (5 ستمبر، 2014)



یہ تھے ہمارے حالیہ وزیراعظم کے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق چند اقوال، جو انہوں نے سابقہ دور حکومت میں بحیثیت حزب اختلاف کے ایک رہنما ارشاد فرمائے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی با ضابطہ رونمائی کی تقریب کیلئے جب اگست 2014 میں چینی صدر شی جین پنگ نے پاکستان کا قصد کیا تو تحریک انصاف کے رہبر انقلاب 35 پنکچر کا الف لیلوی افسانہ گھڑ کر اپنے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہر القادری سمیت دارالحکومت پر چڑھ دوڑے اور شہر اقتدار کے نظام زندگی کو مفلوج کر دیا۔ نتیجتاً چینی صدر کا دورہ ملتوی ہو  گیا اور اس تاخیر نے پاکستان کو بھاری معاشی نقصان پہنچا۔




اس مضمون کو مصنف کی آواز میں سنیے:






کنٹینر پر سوار، انقلاب کے نشے میں مست اور امپائر کی انگلی کے منتظر رہنما نے اپنے ٹویٹس اور بیانات سے سی پیک منصوبے کو پہلے جھوٹ، فراڈ اور دھوکے سے تعبیر کیا۔ پھر چین کی 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھاری سود پر قرضہ کہا۔ حالانکہ قرضہ جات کی مد میں مختص کی گئی رقم 20/25 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ خیر خدا خدا کر کے دھرنا ٹوٹا اور جب لوٹ کر انقلابی گھروں کو گئے، تو اپریل 2015 میں چینی صدر کی پاکستان آمد ہوئی اور ابتدائی طور 46 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کے منصوبہ جات کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ تحریک انصاف نے اس منصوبے پر سنگین بدعنوانیوں کے الزامات سمیت مختلف اعتراضات اٹھانے شروع کر دیے۔

مشرقی اور مغربی روٹ پر صوبائی تعصب پر مبنی بد گمانیاں پھیلا کر اختلافات پیدا کیے۔ تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے اس منصوبے کو "پنجاب" چین راہداری کہہ کر صوبائیت کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ سابقہ حکومت کے چیئر مین پلاننگ کمیشن جناب احسن اقبال نے سی۔پیک سے متعلق دو آل پارٹیز کانفرنس سمیت لاتعداد مدلل اور جامع بریفنگز بھی دیں۔ لیکن خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ مسلسل سی پیک کو متنازع بنانے کیلئے زہر فشانی کرتے رہے۔

جنوری 2016 میں انہوں نے مرکزی حکومت کو سخت تنبیہہ کرتے ہوئے "انتہائی اقدام" اٹھانے کی دھمکی دی۔ اکتوبر 2016 میں ایک دفعہ پھر دھمکی آمیز لہجے میں فرمایا کہ اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو پاک چین اقتصادی راہداری کو خیبر پختونخوا سے نہیں گزرنے دیں گے۔ لاہور میٹرو بس سسٹم کی تعمیر کے بعد سے رہبرِ انقلاب عمران خان و ہمنوا، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کو قومی خزانے کا زیاں کہہ کر کوستے رہے۔ بدعنوانی اور ماحولیاتی آلودگی کا راگ الاپتے اورنج لائن ٹرین کے خلاف ہائی کورٹ جا پہنچے۔ احمقانہ دلیلیں دے کر اس منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکائے جس سے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان ہوا، بلکہ چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت کے پانچ سالوں میں، جناب عمران خان نے سی پیک کو نشانہ بناتے ہوئے، حکومت کی عیب جوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا۔



یہاں اس بات کا ذکر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ تحریک انصاف کے کارپوریٹ شعبدہ باز اسد عمر نے مسلم لیگ کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ہم 8 ارب میں میٹرو بنا کر دکھا سکتے ہیں، وہ بھی بغیرقرضے کے۔ لیکن جب وقتِ قیام آیا تو ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئے۔ 35 ارب روپے قرضہ لے کر ریپڈ بس سروس (بی آر ٹی) نامی منصوبے کی بنیاد رکھی جس کی ایک سال کے اندر تکمیل کا تخمینہ 50 ارب روپے لگایا۔ آج اس بات کو ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا، منصوبے میں تاخیر سے اس کی لاگت 80 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ پشاور شہر کے بیچ و بیچ کھدے ہوئے عظیم الشان گڑھے میں اسد عمر صاحب کے چیلنج کی لاش تدفین کی منتظر ہے۔

انتخابات جیتنے کے بعد جب وزیر اعظم عمران خان اپنی کابینہ سمیت مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو پہلے سو دن کی کارکردگی سے عوام کو تو کچھ آسودگی نہ مل سکی۔ البتہ بے در پے نااہلیوں، نالائقیوں اور غیر ذمہ دارانہ بیانات نے قومی معیشت کا جنازہ ضرور نکال دیا۔ دنیا بھر کی ریاستوں میں نئی حکومت کے آنے پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے، منڈیاں سلامی دیتی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ نواز کو رگیدنے کے شوق میں ہر وقت ملکی معیشت کی ابتری کا نوحہ پڑھتے تحریک انصاف کے وزرا نے سرمایہ کاروں کا اعتماد زمین بوس کر دیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج، جس نے پچھلے پانچ سال ایشیا کی منڈیوں میں ریکارڈ قائم کیے تھے، منہ کے بل جا گری۔ بین الاقوامی منڈی میں پاکستانی روپیہ کی قدر بے قدری کی انتہا کو پہنچ گئی۔ وزرا نے پہلے آئی ایم ایف کو بے نقط سنائیں، پھر ان کے پاس قرضہ لینے پہنچ گئے۔

یہی غیر ذمہ داری اور حماقتیں سی پیک کے معاملے میں بھی دیکھنے میں آئیں۔ سب سے پہلے تو لال حویلی کے افلاطون وزیر ریلوے شیخ رشید نے سی پیک کے تحت پاکستان ریلویز کی بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے پر 2 ارب ڈالر کی قدغن لگائی اور اس منصوبے کو 8 ارب ڈالر سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر لے گئے۔ ریلویز کے افسران نے جب اس کی مخالفت کی تو جناب نے غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے ایک افسر کو "شٹ اپ" کہہ دیا۔ سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کے وفاقی مشیر رزاق داؤد نے بین الاقوامی جریدے فنانشل ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں سی پیک کو خوب لتاڑا، ساتھ ہی ساتھ چین اور سابقہ حکومت پاکستان کو بے نقط سنائیں۔ سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مختلف منصوبوں پر نظر ثانی کا عندیہ دیا۔



مشیر خاص رزاق داؤد کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے چین کے ساتھ سی پیک کے معاملے میں حد درجہ بے اعتنائی برتی ہے، جس کے نتیجے میں چینی سرمایہ کاروں کو غیر منصفانہ فائدہ دیا گیا ہے اور ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ رزاق داؤد نے سی پیک کے تحت جاری تمام منصوبوں کو ایک سال کیلئے منجمد کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے مختلف وزرا بجلی کے کارخانوں کو بد عنوانی اور قومی ڈکیتی سے تعبیر کرتے رہے۔ سی پیک کے تحت منصوبوں اور قرضوں کو پاکستان کی حالیہ معاشی زبوں حالی کا سبب بتایا گیا۔

جب وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے بجٹ پیش کیا تو سی پیک کی مد میں سرمایہ کاری پر دس ارب ڈالر کی کٹوتی لگا کر مغربی راہداری کو، جس کا مقصد چین کا زمینی رابطہ گوادر کی بندر گاہ سے قائم کرنا تھا، منسوخ کر دیا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، اشیائے خورد و نوش پر بھاری ٹیکس اور محصولات لگا کر، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا، جس سے شرع افراط زر پانچ سال کی انتہائی سطح کو چھوتے ہوئے پہلی دفعہ 5 فیصد سے بڑھی۔ 2 لاکھ ماہانہ سے کم آمدنی والے افراد کو ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ واپس لے لی گئی۔ ترقیاتی اخراجات میں 250 ارب روپے کی کٹوتی کی اور آمدنی پر ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو 15 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو دیے گئے ان اقتصادی زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے عام آدمی اور متوسط طبقات کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سادگی کی نام نہاد مہم کی ناکامی اور مہنگائی کا بم گرانے کے بعد بھی جب حکومت وقت سے ملکی معیشت کو سنبھالا نہ دیا جا سکا، تو وزیراعظم نے سعودی عرب میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کیلئے رخت سفر باندھا۔ امدادی پیکج کے حصول کیلئے وزیراعظم کا یہ دوسرا دورہ سعودی عرب تھا۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پہلے دورے کے بعد فرمایا تھا کہ سعودی امداد، جن شرائط سے مشروط ہے وہ پاکستان کے ملکی مفاد میں ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔ رہبر انقلاب عمران خان جو غیر ملکی طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو بے غیرتی سے تعبیر کرتے ہوئے خود کشی کو ترجیح دیتے تھے، بین الاقوامی میڈیا کو یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ ہم معاشی امداد کیلئے "desperate" ہیں۔



پومپیو کے دورہ پاکستان، مودی کے خط، فرانس اور ملائشیا کے صدور کی فون کالز کے بعد مدینہ ماڈل حکومت کی سفارتی نوٹنکیاں دوسرے دورۂ سعودی عرب میں نکھر کر سامنے آئیں۔ کابینہ کی ساری توانائی اور حکمت عملی اسی نوحہ گری اور مرثیہ خوانی کے گرد گھومتی دکھائی دی جو وزیراعظم صاحب کے خطبات کنٹینر کا خاصہ رہی ہیں۔ اپنی "desperation" اور قوم کے درد میں جناب عمران خان صاحب سعودی عرب کی سرمایہ کاری کانفرنس میں چندہ کانفرنس والی تقریر فرما گئے۔

سرمایہ کاروں کے اعتماد کو پاکستان کی "پر کشش" مخدوش اقتصادی حالت، معیشت کی زبوں حالی اور بد عنوانیوں کا چرچا سنا کر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے استدعا کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ چین سے صلاح مشورے کے بغیر ہی سعودی عرب کو سی پیک میں طویل المدتی حصہ داری کی بھی پیشکش کر دی۔ اس ساری بیتابی اور سیاپا فروشی کو دیکھ کر شاید خادم الحرمین شرفین کا دل بھی پسیج گیا۔ سخی دل بادشاہ نے 3 ارب ڈالر کا ادھار تیل اور 3 ارب ڈالر "امانتاً" پاکستان کے قومی خزانے میں رکھوانے کا وعدہ کر کے ان غیرت مند بھکاریوں سے جان چھڑائی۔

سعودی یاترا کے بعد وزیراعظم کی چندہ مہم کا دوسرا پڑاؤ تھا حالیہ دورہ چین۔ نیا دور ٹی وی کے مدیر علی وارثی کی تحقیق کے مطابق چین میں تو یار لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ سی پیک کے خلاف پانچ سالوں پر محیط ہرزہ سرائی چینی یادداشت میں تازہ تھی۔ میٹرو، پل اور سڑکوں سے سخت پر خاش رکھنے والے ہمارے وزیراعظم کا استقبال چین کے وزیر ٹرانسپورٹ نے کیا۔ جو اپنے آپ میں نہ صرف ایک لطیفہ تھا بلکہ کنفیوشزم کی باریک سفارتکاری کے مخمل میں لپٹا ہوا جوتا۔ ذرائع کے مطابق چینی اہلکاروں نے جناب وزیراعظم کو سی پیک پر ان کے اور ان کی کابینہ کے اقوال سنا کر آئندہ احتیاط برتنے کی تنبیہہ کی۔ پاکستانی حکومت کے وزرا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے تناظر میں چین کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ سی پیک پر بیان دیتے وقت ذمہ داری اور احتیاط برتی جائے۔



چین میں پاکستانی سربراہ حکومت اور ان کی کابینہ کی روایتی آؤ بھگت کے بعد جب بات چیت اقتصادی لین دین کے دور میں داخل ہوئی تو پاکستانی وفد کی معاشی نکات پر ناقص تیاری ایک دفعہ پھر آڑے آئی اور چین نے فی الفور کسی امدادی پیکج کے اجرا سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید بات چیت اور بہتر اقتصادی انتظام و بندوبست پر زور دیا۔ چین کے مؤقر روزنامے گلوبل ٹائمز کے مطابق، چین کے حکومتی عہدیداران کو پاکستان کی اقتصادی امداد کرنے میں کوئی عار یا دقت نہیں لیکن امدادی رقم کے مؤثر استعمال پر تحفظات ضرور ہیں۔ چین کے ان تحفظات کے پیچھے یقیناً پاکستان کی موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کار فرما تھی، جس کی بدولت، دو ماہ کے قلیل عرصے میں 16 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر تک گر گئے اور سٹاک ایکسچینج دو دفعہ کریش کر گئی۔

پاکستان کے اقتصادی ماہر جاوید برکی کے مطابق چین نے اس دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کے ساتھ اپنی طویل المدتی شراکت داری کا پر زور اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کی سابقہ حکومت کے آخری ایام میں جن معاشی نکات پر اتفاق ہو چکا تھا، یہ اعلامیہ ان طے شدہ نکات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حتمی بات چیت کا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ چین پاکستان کی کم عمر آبادی اور جوان افرادی قوت کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری معیشت کو صنعتی دور میں داخل کرنا چاہتا ہے۔

جاوید برکی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہر معاشیات سلمان شاہ نے چین کے ساتھ مشترکہ اعلامیے کے ماخذ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت نے حکومت پاکستان کو 2005 سے جاری طویل المدتی اقتصادی شراکت داری اور تعاون کی سمت کی یاد دہانی کروائی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ چینی قیادت کے اس عزم کا پر زور اظہار ہے کہ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کے بنیادی اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر نو، افرادی قوت کی بہبود، نقل و حمل کی شہری ضروریات، زراعت کی ترقی، بینکاری کے شعبے تک عوامی رسائی، توانائی کی ضروریات، آبپاشی، نکاسی اور پانی کے ذخیرہ کے مؤثر انتظام اور پاکستان ریلویز کے نظام کی بحالی سمیت ہر شعبے میں، اپنی صنعت و حرفت اور مہارت کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کار لانے کو تیار ہے۔ یہ اعلامیہ پاکستان کی حکومت کیلئے ایک نصیحتی دستاویز ہے۔ میری نظر میں یہ اعلامیہ وزیراعظم پاکستان کی اس دلیل کی نفی ہے جس کے مطابق سڑکیں اور پل بنانے سے قومیں نہیں بنتیں۔



وزیراعظم عمران خان کے بچگانہ رویے کے باوجود پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بغیر کسی حیل و حجت کہا کہ چین ہمارا برادر ملک ہے اور پاکستان کا کوئی بھی حکمران ہو اس کا دورۂ چین ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ ایک منجھے ہوئے سیاسی ورکر اور سفارتی نذاکتوں کو سمجھنے والے سیاستدان سے ایسی ہی اعلیٰ ظرفی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ چینی قیادت کی طرف سے مشترکہ اعلامیے میں سابقہ دور حکومت میں لگائے جانے والے بجلی کے کارخانوں کی کامیابی کا خصوصی ذکر کیا گیا، جن پر تحریک انصاف کی طرف سے بدعنوانی کے الزامات لگا کر شدید تنقید کی جاتی رہی۔ المیہ یہ ہے کے دوسری طرف سے سے اعلیٰ ظرفی تو دور کی بات، چین میں سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب نے وہی کنٹینر والی روش اپنائی۔ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے کرپشن کی بیخ کنی پر اپنی جدو جہد کو بیان کیا، پاکستان میں اداروں کی بدحالی اور سابقہ حکمرانوں کی نااہلیوں کو کوسا۔ خوش آمدیوں اور درباریوں میں گھرے، حقیقت سے دور سراب کے قریب، کم ظرفی، انا پرستی، اور نرگسیت جیسی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا لوگ جب بڑے حکومتی عہدوں پر بیٹھیں تو ان سے ایسی ہی قومی بدخوئی اور خود نمائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اب عمر کے اس حصے میں وزیراعظم صاحب بھی عادت سے مجبور ہیں۔ ہمیں تو بس اتنا کہنا تھا کہ ملکی بد حالی اور اپنی جدوجہد ک ثابت کرنے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ آپ شکستہ حال شیراوانی پہن کر بیرونی دوروں پر جائیں۔ حضور، کم از کم کپڑے تو استری کروا کر پہن لیا کریں، مولا خوش رکھے!

عدنان حفیظ، گرفتھ یونیورسٹی آسٹریلیا کے طالبعلم ہیں، اور پولیٹیکل اکانومی کے شعبے میں ریسرچ کر رہے ہیں - انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز کیلئے بھی لکھتے ہیں - عدنان کی تحقیقی دلچسپیوں میں دنیا کی اقتصادی تاریخ ، معیشت، تجارت اور بین الاقوامی تعلقات کے باہمی اثرونفوذ، فلسفہ، اقتصادی گلوبلائزیشن اور اسکے غربت، دولت کی تقسیم اور معاشی بحران پر اثرات وغیرہ شامل ہیں-