سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا دینے والے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار سلیم رضا نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس کیس کے متعلق مزید انکشافات کیے ہیں۔ سلیم رضا کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ان کو کہا کہ آپ نواز شریف کے خلاف گواہی دیں، میرے انکار کرنے کے بعد انہوں نے میرا نام انتہائی مطلوب افراد کی فہرست (موسٹ وانٹڈ لسٹ) میں ڈلوا دیا۔
سلیم رضا کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے میری زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ ان کی بیٹی کی وفات ہوئی تو وہ اپنی بیٹی کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔ مجھ پر ایک بھی مقدمہ نہیں ہے مگر مجھے انتہائی مطلوب دہشت گرد بنا کر میرا کاروبار اور ہر چیز تباہ کر دی گئی ہے۔
سلیم رضا کے مطابق میرے اوپر کروڑوں روپے کے عوض ویڈیو بنانے کا الزام ہے مگر اس الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے میرا نام ناصر بٹ کے ساتھ جوڑا جو کہ بد نیتی پہ مبنی ہے۔ میرا قصور صرف یہی ہے کہ میں نے نواز شریف کے خلاف جھوٹی گواہی نہیں دی۔
سلیم رضا نے کہا کہ وہ پیشی پر 100 سے زائد مرتبہ نواز شریف کے ساتھ اسلام آباد گئے تھے اس لیے وہ حکام کی نظروں میں آ گئے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ سلیم رضا کا مزید کہنا تھا کہ جج ارشد ملک میرے گھر آئے تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف غلط فیصلہ دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے ضمیر پر بوجھ ہے۔ ان کو پچھتاوے کی وجہ سے نیند نہیں آتی، اس لیے وہ ضمیر کا بوجھ کم کرنے کے لیے نواز شریف سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔
میاں سلیم رضا نے انکشاف کیا کہ ایف آئی اے والوں نے انہیں رشوت کی پیش کش بھی کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر میں نواز شریف کے خلاف گوائی دیتا ہوں تو مجھے مالی امداد بھی ملے گی، کاروبار میں بھی مدد ملے گی اور وفاق میں عہدہ بھی ملے گا مگر میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مر جاؤں گا مگر نواز شریف کے خلاف جھوٹی گواہی نہیں دوں گا۔ اس انکار کی وجہ سے مجھے دہشت گرد بنا دیا گیا۔
سلیم رضا نے کہا کہ ان کے پاس میڈیا پر آنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کروا کر مجھے انصاف دلوایا جائے کیونکہ میں پاکستان واپس آنا چاہتا ہوں۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاناما کیس میں نا اہلی کے بعد جج ارشد ملک کی ویڈیو
سامنے آئی تھی جس میں وہ اعتراف کر رہے تھے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ان پر مقتدر حلقوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا تھا۔