پاکستانی اشرافیہ کا 'پروٹوکول' سے رومانس احساس کمتری کی علامت ہے

پاکستانی اشرافیہ کا 'پروٹوکول' سے رومانس احساس کمتری کی علامت ہے
پروٹوکول ایک ایسی چیز ہے جس کا شوق پاکستان کے تمام بڑے اور طاقتور حلقوں میں بلا تفریق پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ سیاسی قیادت سے ہوں، اسٹیبلشمنٹ سے ہوں، افسر شاہی سے ہوں، معزز جج صاحبان ہوں یا پھر ان سب کی اولادیں ہوں۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو پاکستان میں طاقتور بننے کا شوق ہی اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ پروٹوکول کے مزے لے سکیں۔

معاملہ پروٹوکول کا ہو تو سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں پھر چاہے وہ وزیراعظم کا پروٹوکول ہو یا وفاقی وزرا کا، چیف سیکرٹری کا، معزز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کا ہو یا ان کے 'نو بیاہتا' بیٹوں کا، سب اس دور میں شامل نظر آتے ہیں اور فل پروٹوکول کے مزے اڑاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بسا اوقات کریمنل کورٹس کے ججز یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ججز کو حکومت سکیورٹی مہیا کرتی ہے کیوںکہ ان کو مختلف حلقوں کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات تو کریمنل کیسز کے ججز جن کا تعلق ہائی کورٹ سے ہو، ان کو بھی بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔

متعلقہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ججز کیساتھ چلنے والی پولیس سکیورٹی کی گاڑیاں پرانی ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے اکثر دوران ڈیوٹی سکیورٹی کیلئے گاڑیاں آپریشنز ونگ اورتھانوں سے نکال کر لگانا پڑتی ہیں، جس سے تھانوں کے آپریشنل معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ ججز کی سکیورٹی کیلئے خریدی گئی گاڑیاں پول میں صرف عدلیہ کی سکیورٹی کیلئےمختص کر دی جائیں گی۔ بے شک یہ ایک انتہائی اہم اور احسن اقدام ہوگا۔ لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے ملک کی اشرافیہ کو اب یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم نے بحیثیت قوم اس انتہائی اہم چیز سکیورٹی اور پروٹوکول کو ایک سٹیٹس سمبل، شو آف، اپنی دھاک بٹھانا اور محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ذریعہ کیوں بنا دیا ہے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ ویگو ڈالے اور سکیورٹی اہلکار ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ طاقتور سمجھا جائے گا۔

گزشتہ دنوں مجھے ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر سپریم کورٹ کے ایک معزز جج صاحب کا بیٹا کچھ ایسی ہی حرکتیں کرتا نظر آیا۔ جب موصوف اپنے سسرال والوں کی ایک شادی میں پروٹوکول کو استعمال کرتے ہوئے محض شو آف اور سسرالیوں کیلئے راستہ بنانے کیلئے استعمال کرتے ہوئے نظر آئے تا کہ منزلِ مقصود پر جلدی پہنچا جا سکے۔ میں ججز، وزرا، افسر شاہی یا ملکی اسٹیبلشمٹ سے منسلک اشرافیہ کے بچوں کے سکیورٹی پروٹوکول کے خلاف ہرگز نہیں ہوں مگراس سکیورٹی پروٹوکول کو محض سکیورٹی کیلئے ہی استعمال کرنا چاہئیے نہ کہ شو آف کیلئے۔

تقریباً دو برس قبل دسمبر 2020 میں اس وقت کے وزیر ایکسائز پنجاب حافظ ممتاز احمد کی شادی کی رنگا رنگ تقریب زبان زد عام تھی جس میں وزیر صاحب (دولہا) کے سرکاری پروٹوکول اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا صارفین نے وزیر موصوف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے وزارت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود سادگی کا کوئی خیال نہ رکھا اور شاہانہ انداز میں شادی کی۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صوبائی وزیر اپنی دلہن لینے پہنچے تو ان کی شان و شوکت ہی نرالی تھی۔ چمچماتی سرکاری گاڑیاں، ہیوی ڈیوٹی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گھڑ سوار بھی سلامی کے لیے موجود تھے۔

ایسے بے شمار واقعات روز مشاہدے میں آتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری اشرافیہ بھی اپنی اس غلطی کا احساس کرے اور سکیورٹی پروٹوکول کو اسی کام کیلئے استعمال کرے جس کیلئے وہ عمل میں لائی گئی نہ کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حاصل کی گئی سکیورٹی کو محض شو آف اور طاقت کے دکھاوے کیلئے استعمال کیا جائے۔

حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔