'عمران خان بیرونی فنڈنگ کیس میں منی لانڈرنگ کے مرتکب قرار پا سکتے ہیں'

'عمران خان بیرونی فنڈنگ کیس میں منی لانڈرنگ کے مرتکب قرار پا سکتے ہیں'
عمران خان بیرونی فنڈنگ کیس میں منی لانڈرنگ کر مرتکب قرار پا سکتے ہیں اور اس حوالے سے پارٹی کے سینیئر قائدین بشمول اسد عمر کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔

سینیئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے یوٹیوب پر اپنے پروگرام ٹاک شاک میں چند ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔ پروگرام میں انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بیرونی فنڈنگ کیس پر FIA تحقیقات کر رہی ہے اور اس وقت کوئی چار، پانچ کمیٹیاں ہیں جو مختلف صوبوں میں اس کیس پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان تحقیقات میں ایک چیز جو بار بار سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ PTI نے اس کیس کے دوران اپنے بہت سے اکاؤنٹس سے اظہارِ لاتعلقی کیا تھا لیکن انہی اکاؤنٹس کو بعد میں استعمال کیا جاتا رہا۔ کچھ رہنما تو اپنے نام پر چیک کیش کرواتے رہے ہیں، جن میں عمران خان بھی شامل ہیں جنہوں نے 80 لاکھ روپیہ ایک اکاؤنٹ سے نکالا اور وہ پیسہ کدھر گیا، پتہ نہیں چلا۔

ایک بین الاقوامی سطح کے مجرم کے ذریعے منی لانڈرنگ

اس پروگرام میں ایک دلچسپ پہلو کی طرف عمر چیمہ نے توجہ دلائی کہ مختلف کاروباری شخصیات کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ کاروباری شخصیات کے اکاؤنٹس میں بڑی بڑی رقوم کا آنا جانا معمول کی بات ہے جب کہ سیاسی لوگ تو ہر وقت انٹیلیجنس اداروں، FIA اور نیب کے ریڈار پر ہوتے ہیں۔ کاروباری شخصیات پر اس طرح کی نظر نہیں رکھی جاتی۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ایک بڑی رقم باہر سے عارف نقوی صاحب کی طرف سے بھیجی گئی۔ یہ رقم براہِ راست Wootton Cricket کے ذریعے PTI کے اکاؤنٹ میں آئی۔ لیکن ایک اور ٹرانزیکشن بھی ہوئی جو کہ ایک کاروباری شخصیت طارق شفیع کے اکاؤنٹ کے ذریعے کی گئی۔ یہ صاحب عمران خان کے ایچیسن کالج سے دوست ہیں۔ یہ وہ طارق شفیع نہیں جو نواز شریف کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ایک اور طارق شفیع ہیں جن کا دیگر کاموں کے علاوہ کپڑے کا کاروبار بھی ہے۔ طارق شفیع PTI کے سنٹرل فنانس بورڈ کے رکن ہیں اور پارٹی کے کئی اکاؤنٹس کے دستخط کنندہ بھی۔ یہ شوکت خانم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر بھی ہیں۔

منی لانڈرنگ کس ٹرسٹ کے ذریعے کی گئی

عمر چیمہ کے مطابق یہ کام بالکل ویسے ہوا جیسے کوئی منجھا ہوا منی لانڈرنگ کا کھلاڑی کرتا ہے۔ عارف نقوی نے 11، 12 لاکھ تو ووٹن کرکٹ کی آفشور کمپنی سے براہِ راست اکاؤنٹ میں بھیجے۔ کچھ کے لئے انہوں نے ایک ٹرسٹ بنایا تھا۔ اس کا نام تھا The Insaf Trust۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ PTI کا ہی کوئی ٹرسٹ ہے لیکن PTI کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم، پارٹی کے علم میں ہے کہ یہ ٹرسٹ موجود ہے اور اس کے طارق شفیع اور حامد زمان صاحب trustee ہیں۔ یہ حامد زمان وہی صاحب ہیں جو گذشتہ ہفتے ہی گرفتار ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ کاروباری شخصیات اس ٹرسٹ کے بورڈ پر ہیں۔

ٹرسٹ کا کام کیا ہے؟

سرکاری دستاویزات کے مطابق اس ٹرسٹ کا کام سیاسی آگاہی پیدا کرنا ہے۔ مثلاً صحت اور تعلیم وغیرہ جیسے کام گویا یہ کاروباری حضرات کوئی معاشرتی ذمہ داری پیدا کر رہے ہیں، عوام میں شعور پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن عمر چیمہ کے مطابق ٹرسٹ کے تین اکاؤنٹ تھے حالانکہ یہ کہیں رجسٹرڈ بھی نہیں تھا۔ جب اعزاز سید نے پوچھا کہ اگر ٹرسٹ رجسٹرڈ نہیں تھا تو پھر اس کے نام پر اکاؤنٹس کیسے کھل گئے۔ عمر چیمہ نے بتایا کہ اس کی ایک اور کہانی ہے۔ PTI کے مطابق یہ تمام فنڈنگ اس دور کی ہے جب 2013 کا الیکشن ہونے والا تھا اور 11 مئی کو الیکشن تھا تو اس سے کوئی پانچ دن پہلے، دس دن پہلے، دو ہفتے پہلے اسی طرح باہر سے عارف نقوی پیسے بھیج رہے تھے۔

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ جس کا کام پیسے کے مشکوک لین دین پر نظر رکھنا ہے، اس نے FIA کو بتایا ہے کہ کم از کم اس دوران 52 ایسی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں جن پر بینکوں کو STR یعنی Suspicious Transaction Report جاری کرنی چاہیے تھی کہ یہ مشکوک ہے اور یہ پیسے غیر معمولی طریقے سے آئے ہیں یا اس اکاؤنٹ میں کبھی اتنے آئے نہیں ہیں یا جس ذریعے سے آ رہے ہیں اس کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ لین دین غلط ہی ہو لیکن بینکوں کا کام تھا کہ وہ STR جاری کرتے۔

انصاف ٹرسٹ کا طریقۂ واردات کیا تھا؟

انصاف ٹرسٹ کے دو، تین اکاؤنٹ تھے اور ان میں پیسے ووٹن کرکٹ سے آئے۔ یہ آئے بھی PTI کے لئے تھے لیکن طریقہ ایسا اختیار کیا گیا کہ یہ رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں نظر نہ آئے۔ ایک فارن کرنسی اکاؤنٹ تھا جس میں ڈالرز آتے، پھر اسی ٹرسٹ کے لوکل کرنسی اکاؤنٹ میں جاتے اور پھر PTI کو نہیں بلکہ انہوں نے آگے دو میڈیا کمپنیز کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا جن کا کام تھا اشتہار دینا یا ایڈورٹائزنگ کیمپین وغیرہ چلوانا تھا، یہ رقم ان کمپنیز کو PTI کے لئے اسی ٹرسٹ کے لوکل کرنسی والے اکاؤنٹ سے جاتی۔

جب ان کمپنیز سے FIA نے پوچھا کہ آپ نے یہ چیک نہیں کیا کہ یہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں جب کہ یہ اکاؤنٹ تو PTI کا تھا ہی نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ PTI کے الیکشن مہم کے سربراہ اسد عمر تھے، ہم نے ان سے پوچھا، ان کے سٹاف نے اسد عمر کی ای میل سے جواب دیا کہ یہ پیسے ہمارے ہی ہیں؛ انصاف ٹرسٹ ہمارے ہی پیسے آپ کو دے رہا ہے۔ عمر چیمہ کے مطابق یہ سیدھا سیدھا منی لانڈرنگ کا کیس ہے۔

سینیئر صحافی نے بتایا کہ یہ رقم تقریباً 6 لاکھ 25 ہزار ڈالر کے لگ بھگ تھی جب کہ ایک اور رقم قریب 5 لاکھ 75 ہزار ڈالرز کی تھی جو براہِ راست عارف نقوی کے اکاؤنٹ میں آئی اور انہوں نے یہ رقم PTI کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی۔

طارق شفیع اور عارف نقوی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

عمر چیمہ کے مطابق عارف نقوی تو اس وقت بیرونِ ملک گرفتار ہو چکے ہیں۔ جب طارق شفیع صاحب سے FIA پوچھتی ہے کہ آپ کا عارف نقوی سے کیا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میں ان کو نہیں جانتا۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ تو آپ کو ووٹن کرکٹ کے ذریعے پیسے بھیجتے رہے ہیں، طارق شفیع کہتے ہیں کہ دس سال پرانی بات ہے، مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا۔ اس دوران لاہور اور کراچی کی ہائی کورٹس نے ان کو حفاظتی ضمانت دے دی ہے جس کی وجہ سے FIA انہیں گرفتار نہیں کر سکتی۔ حامد زمان البتہ گرفتار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان کا PTI سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کا تعلق براہ راست نظر آ رہا ہے۔ تاہم، مین کردار یہاں طارق شفیع کا نظر آ رہا ہے۔

عمران خان کے لئے منی لانڈرنگ کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں

اس پروگرام میں عمر چیمہ نے اسد عمر، سیف اللہ نیازی اور کچھ دیگر لوگوں کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ اس سارے کھیل میں کس طرح شریک تھے اور ان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ یہاں اصل شکار عمران خان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ جو معلومات الیکشن کمیشن سامنے لایا تھا، اس سے زیادہ معلومات اب سامنے آ رہی ہیں۔ کئی کمپنیاں ہیں جنہوں نے PTI کو رقوم فراہم کیں جب کہ کوئی پاکستانی یا غیر ملکی کمپنی کسی پارٹی کو فنڈنگ نہیں دے سکتی۔ تفتیشی اہلکاروں کے مطابق ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہیں، نئی سے نئی چیزیں سامنے آتی جا رہی ہیں۔