آج Asian Review Nikkei میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ سی پیک کے سربراہ یعنی جنرل ر عاصم سلیم باجوہ پر استعفا دینے کے لئے دباؤ ہے۔ یہ دباؤ کس طرف سے ہے؟ اس حوالے سے جریدے کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں یہ سوالیہ خیال سرگرم ہے کہ طاقتور جنرل ر باجوہ کے اثاثوں کے حوالے سے خبر برابر کے طاقتور حلقوں کی اشیر باد کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔
مضمون میں لکھا گیا ہے کہ سی پیک کی سربراہی پر ایک ایسے شخص کی موجودگی جس پر بڑے اثاثے نامعلوم ذرائع اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بنانے یا ان میں مدد دینے کا الزام ہو اس پورے منصوبے پر سوال تو اٹھاتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی طور پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کو کوئی نہ کوئی راہ تو دینا ہوگی۔
ساتھ ہی مضمون میں وارسا کے ایشیئن ریسرچ سنٹر برائے وار سٹڈیز کے محقق کا بیان شامل کیا گیا ہے جو کہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی ایلیٹ سی پیک کو ہر حال میں اختلافات کے باوجود پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ولسن انسٹیوٹ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کیوگلمین کا بھی تجزیہ اس میں شامل کیا گیا ہے۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کا سکینڈل عاصم باجوہ کو سی پیک پر کام کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ یہ انہوں نے اس سیاق و سباق میں کہا کہ چین اور پاکستان دنوں ممالک میں انہیں سی پیک کے حوالے سے اعلیٰ درجے پر جانچا جاتا ہے۔
اب تازہ ترین طور پر وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہہ دیا ہے کہ جسے جنرل عاصم باجوہ کی منی ٹریل پر اعتراض ہے وہ جا کر عدالت میں جے آئی ٹی کے لئے درخواست دے دے۔