عاصم سلیم باجوہ کے بعد جنرل مشرف کے آمدن سے زائد اثاثوں کے شواہد بھی سامنے آگئے

عاصم سلیم باجوہ کے بعد جنرل مشرف کے آمدن سے زائد اثاثوں کے شواہد بھی سامنے آگئے
عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے بعد احمد نورانی نے فیکٹ فوکس کے لئے ایک اور رپورٹ میں اعداد و شمار کے ساتھ جنرل مشرف کے آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں بھی خبر شائع کر دی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خبر انہوں نے دی نیوز کے لئے 2016 میں لکھی تھی اور اسے ایک مرتبہ پھر انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے لیکن اچنبھے کی بات ہے کہ یہ خبر ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور اب تک بڑی تعداد میں پڑھی جا چکی ہے۔

خبر کے مطابق برطانیہ کے سرکاری زمین کے کاغذات کے مطابق جنرل مشرف نے 2013 میں 20 کروڑ روپے کی مالیت کا لندن میں ایک فلیٹ خریدا۔ اسی دورانیے میں انہوں نے اتنی ہی مالیت کا ایک اور فلیٹ بھی متحدہ عرب امارات میں خریدا تھا۔ حالانکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ان کو 2 کروڑ روپے کے قریب ملے تھے۔

2013 الیکشن سے پہلے مشرف کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق جنرل مشرف کو ان کی آرمی سروس کے عوض ملنے والے پلاٹس اور فارم ہائوس کو فروخت نہیں کیا تھا۔ البتہ بہاولپور میں 50 ایکڑ زرعی زمین انہوں نے 2002 میں ضرور بیچی تھی۔

جنرل مشرف عدلیہ بحالی کے بعد اپریل 2009 میں پاکستان چھوڑ چکے تھے اور اس وقت تک انہوں نے اپنے بین الاقوامی لیکچر شروع نہیں کیے تھے۔ 13 مئی 2009 کو انہوں نے 1.35 ملین پاؤنڈ ادا کر کے لندن میں فلیٹ ہائیڈ پارک کریسنٹ خریدا تھا۔ ای سی پی میں جمع کروائے گئے اثاثوں کے ان کے بیان سے ان کی دو غیر ملکی منقولہ جائیدادیں ظاہر ہوتی ہیں۔ 28، کیسل ایکڑ، ہائڈ پارک کریسنٹ، لندن؛ 3902، ساؤتھ برج ٹاور 6 ڈاؤن ٹاؤن، دبئی، متحدہ عرب امارات۔ متحدہ عرب امارات کے فلیٹ کو بھی جنرل مشرف نے اسی عرصے میں خریدا تھا اور ماہرین کے مطابق، اس کی مالیت خریداری کے وقت 20 کروڑ پاکستانی روپے سے زیادہ تھی۔

سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے پاس یہ تمام تفصیلات موجود تھیں لیکن اس نے تب بھی سابقہ ڈکٹیٹر کے خلاف مناسب تحقیقات شروع کرنے کے لئے اقدامات نہ کیے۔ مشرف نے 2009 میں پاکستان چھوڑنے کے بعد چند ماہ میں ان جائیدادوں کی ادائیگی کی تھی، ان کا کہنا تھا یہ جائیدادیں انہوں نے بین الاقوامی لیکچرز سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خریدی ہیں۔ لیکن اس سے قبل وہ لندن اور متحدہ عرب امارات میں رہائشی پلاٹ، مکانات، تجارتی جائیدادیں اور فارم ہاؤس خرید چکے تھے جن کی قیمت لگ بھگ 400 ملین روپے یعنی 40 کروڑ روپے تھی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو نیب کے پاس تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ طویل عرصے سے زیر التوا ہے۔ کیونکہ جہاں تک بین الاقوامی یونیورسٹیز میں لیکچرز کی بات ہے تو یہ مشرف نے 2010 میں شروع کیے تھے۔

تاہم، جب دی نیوز نے پرویز مشرف کے ترجمان اور ان کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے چیف کوآرڈینیٹر احمد رضا قصوری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مشرف نے بین الاقوامی لیکچر کی اپنی آمدنی سے لندن اور متحدہ عرب امارات کے فلیٹس خریدے۔ قصوری نے کہا، ’’پرویز مشرف دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے افراد میں سے ایک تھے جو بین الاقوامی فورمز اور یونیورسٹیز میں لیکچر دیتے تھے‘‘۔ اس سوال پر کہ کس طرح پرویز مشرف ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر کے جائیداد خریدنے میں کامیاب ہو گئے کیوں کہ ان کی پنشن کی رقم انہوں نے خریدی گئی جائیدادوں کی کل قیمت کے مقابلے میں بہت کم بتائی تھی، قصوری نے کہا کہ وہ پرویز مشرف کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ اس سے ناواقف تھے۔ قصوری نے مزید کہا کہ پرویز مشرف ایک ایماندار اور صاف گو انسان ہیں۔

مشرف کا ای سی پی کے سامنے جمع کرائے گئے اثاثوں کا بیان اور ان کی پاکستانی جائیدادوں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

  • مکان نمبر 6، آرمی ہاؤسنگ سکیم پارٹ-II کلفٹن کینٹ، کراچی، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 50،000،000)

  • پلاٹ نمبر 172، خیابان فیصل، فیز 8، ڈی ایچ اے، کراچی، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 15،000،000)

  • پلاٹ نمبر 301، بیچ سٹریٹ نمبر 1، فیز 8، ڈی ایچ اے کراچی، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 15،000،000)

  • پلاٹ نمبر 1، (200 مربع گز یارڈز کمرشل)، سیکٹر ایف، ڈی ایچ اے، فیز 2، اسلام آباد، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 5،000،000)

  • پلاٹ نمبر سی سی 1، (200 مربع گز یارڈز کمرشل)، سیکٹر سی سی اے، ڈی ایچ اے، لاہور، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 60،000،000)

  • فارم نمبر C-1 / B، (5 ایکڑ)، پارک روڈ، چک شہزاد، اسلام آباد، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 60،000،000)

  • پلاٹ نمبر 1، 5-A-E، فیز 3B، سنگر ہاؤسنگ سکیم، گوادر، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 160،000)

  • مکان نمبر 25، آرمی ہاؤسنگ سکیم، حصہ 2، کلفٹن کینٹ، کراچی، بیگم صہبا مشرف کے نام سے (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 40،000،000)


اگرچہ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل مشرف انتخابات لڑنے سے اس لئے نااہل قرار پائے تھے کیونکہ جولائی 2009 میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے انہیں غاصب اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والا آمر قرار دیا تھا، لیکن یہاں حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد الیکشن ٹریبونل کے جج نے انہیں اپنے اثاثوں میں تضادات کا سامنا کرتے ہوئے انتخابات لڑنے کے لئے نااہل قرار دیا۔ کمیشن اور ایف بی آر کی رپورٹ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 7 اپریل 2013 کو لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کی رپورٹ میں ان کے بینک کھاتوں میں بڑی رقم اور غیر منقولہ جائیداد کی عکاسی نہیں ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق، انہوں نے اپنے پاکستانی کھاتوں میں رقم آنے کے باوجود کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔

صحافی احمد نورانی کی یہ خبر 23 اپریل 2016 کو دی نیوز میں شائع ہوئی تھی جسے ایک مرتبہ پھر حال ہی میں لیفٹننٹ جرنل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے مبینہ اثاثوں کی طفصیلات سامنے لانے والی ویب سائٹ factfocus.com پر شائع کیا گیا ہے اور یہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر تیزی سے نہ صرف شیئر ہو رہی ہے بلکہ ویب سائٹ پر بھی بڑی تعداد میں پڑھی جا چکی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ کیا وجہ ہے کہ اس خبر پر چار سال گزر جانے کے باوجود کوئی ایکشن قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتوں اور نیب کی جانب سے نہیں لیا گیا۔