جنرل عاصم سلیم باجوہ پر لگائے گئے الزامات پر جوابات اور ان پر اٹھائے گئے سوال

جنرل عاصم سلیم باجوہ پر لگائے گئے الزامات پر جوابات اور ان پر اٹھائے گئے سوال
جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کی شام ایک پریس ریلیز اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے جاری کی اور پھر اے آر وائے اور جیو نیوز کے پروگرامز میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے احمد نورانی کی خبر کو بے بنیاد اور انہیں بدنام کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ عاصم باجوہ نے اپنی پریس ریلیز میں factfocus.com پر شائع ہونے والی خبر کے بارے میں کہا کہ ایک نامعلوم ویب سائٹ پر جو خبر میرے خلاف لگی ہے، اس کا اصل مقصد مجھے بدنام کرنا ہے۔ انہوں نے شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے استعفا بھی دینے کا اعلان کر دیا۔

اپنے جواب میں عاصم باجوہ نے کہا کہ ان کے اوپر لگائے گئے الزامات تین مختلف اقسام کے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ الزام ہے کہ میں نے بطور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی، اپنے یا اپنی اہلیہ کے اثاثہ جات کو چھپایا ہے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ میرے بھائیوں کی کاروباری حیثیت میں میری فوج میں ترقی کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ اور تیسری نوعیت کے الزامات ایسی بہت سی کمپنیوں سے متعلق ہیں جو کہ ان کے خاندان سے منسوب ہیں۔

اپنے جواب میں عاصم باجوہ نے لکھا ہے کہ انہوں نے قطعاً اپنی اہلیہ کی جائیداد یا بیرونِ ملک کاروبار کو نہیں چھپایا۔ دراصل ان کی اہلیہ نے جو بھی سرمایہ کاری اس کاروبار میں کی تھی، انہوں نے اپنے اثاثے ظاہر کرنے سے پہلے ہی اپنا حصہ اس میں سے علیحدہ کر لیا تھا۔ عاصم باجوہ کے مطابق انہوں نے اپنے اثاثے وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر 22 جون 2020 کو ظاہر کیے تھے جب کہ ان کی اہلیہ نے خود کو کاروبار سے علیحدہ اس سے قریب تین ہفتے پہلے یعنی یکم جون 2020 کو ہی کر لیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کے کل 19 ہزار 492 ڈالر اس کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی جب کہ ان کے بھائیوں کا حصہ 54 ہزار 458 ڈالر تھا۔ یعنی کل رقم جو اس خاندان نے اس کاروبار میں لگائی تھی وہ 73 ہزار 950 ڈالر تھی۔ یہ سرمایہ کاری 2002 سے 2020 کے دوران 18 سالوں میں کی گئی جب کہ کاروبار کی کل مالیت 70 ملین یعنی 7 کروڑ ڈالر ہے۔ اس میں سے 6 کروڑ ڈالر بینک قرضہ جات اور دیگر فنانشل سہولتوں کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی جب کہ قریب 10 کروڑ میں سے 73 ہزار 950 ڈالر ان کی اہلیہ اور بھائیوں کا لگایا سرمایہ تھا اور باقی رقم مختلف شیئر ہولڈرز کی جانب سے لگائی گئی کیونکہ باجوہ خاندان اس کاروبار کا واحد شریک نہیں بلکہ ان میں اور لوگوں کی بھی مختلف مدوں میں سرمایہ کاری ہے۔

ان کے خاندان کی ملکیت میں درجنوں کمپنیوں کے بارے میں جو الزامات احمد نورانی کی خبر میں لگائے گئے ہیں، ان پر عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ ان میں سے بہت سی کمپنیاں غیر فعال ہیں، کچھ میں انہیں مسلسل نقصان ہو رہا ہے جب کہ ایک کمپنی ہمالیہ پرائیویٹ لیمیٹڈ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ ان کے بیٹے کی ملکیت ہیں جب کہ ان میں صرف 50 فیصد حصص ان کے بیٹے کے ہیں اور گذشتہ تین سالوں میں کل فائدہ پانچ لاکھ روپے کا ہوا ہے۔ اپنی کئی کمپنیز کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ یہ ان کی ملکیت ہیں لیکن ان سے کبھی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، مگر یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ انہوں نے ان کمپنیوں کی ملکیت رکھنے سے انکار نہیں کیا۔

اپنے بیٹوں کے امریکہ میں ایک گھر کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ یہ 31 ہزار ڈالر میں خریدا گیا تھا اور یہ کوئی بہت مہنگا یا بڑا گھر نہیں۔ بہت چھوٹا سا مکان ہے اور اس کو خریدنے کے لئے جو رقم استعمال ہوئی، وہ مکمل طور پر ان کے بیٹوں کی حق حلال کی کمائی تھی اور انہوں نے اپنے آزاد ذرائع سے یہ پراپرٹی خریدی۔ اس کے لئے رقم کہاں سے آئی، یا کیسے کمائی گئی، یہ امریکہ میں متعلقہ محکموں سے پتہ کیا جا سکتا ہے جہاں ان کی مکمل ٹیکس تفصیلات بآسانی دستیاب ہیں۔

عاصم باجوہ نے مزید لکھا کہ امریکہ میں ایک اور گھر ہے جو کہ mortgage پر لیا گیا اور ابھی 80 فیصد قرضہ دیا جانا باقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے بیٹے بالغ ہیں اور وہ مالی طور پر ان پر انحصار نہیں کرتے، لیکن یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ وہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں سے کاروبار کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں اور بہت ہی بہترین نوکریوں پر رہے ہیں۔

عاصم باجوہ کی اس پریس ریلیز نے جہاں بہت سے سوالات کے جوابات دیے ہیں، وہیں بہت سے سوالات کھڑے بھی کر دیے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ان کی اہلیہ نے کاروبار سے پیسہ ان کے اثاثے ظاہر کرنے سے محض 21 دن پہلے کیوں نکال لیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ عاصم باجوہ کے بقول ان کی اہلیہ نے یہ رقم نکالی لیکن پاکستان واپس نہیں آئی بلکہ امریکہ ہی میں موجود ان کے بیٹوں نے وہ رقم رکھ لی اور ان کے بیٹے بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ ہی کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا یوں کہا جائے کہ رقم یا شیئرز نے خاندان کے اندر ہی ایک ہاتھ تبدیل کیا ہے؟ اس سے پہلے جو رقم ان کی اہلیہ کے نام پر تھی، وہی رقم اب اسی کاروبار سے منسلک ان کے بیٹے کے پاس ہے۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت سی کمپنیز کے حوالے سے جواب دیا ہے لیکن بہت سی کمپنیوں سے متعلق وہ حقائق سامنے نہیں بھی لائے۔

تیسرا سوال یہاں یہ ہے کہ اگر یہ کمپنیز غیر فعال ہی رکھنا ہیں تو پھر یہ کمپنیاں ان کے بچوں کی ملکیت میں کیوں ہیں؟

چوتھا سوال وہ ہے جو سینئر صحافی حامد میر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں اٹھایا ہے کہ اگر جنرل (ر) باجوہ صاحب درست تھے تو انہوں نے استعفا کیوں دیا؟ سماجی حقوق کے کارکن عمار علی جان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی عاصم باجوہ کی سربراہی میں 62 ارب روپے کا ایک پرجیکٹ ہے جس کا نام پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔

اے آر وائے سے منسلک صحافی اقرار الحسن کا کہنا ہے کہ حقیقت جو بھی ہے، سامنے آنی چاہیے۔ اگر احمد نورانی کی خبر غلط ہے تو اسے عدالت لے جا کر ہتک عزت کا مقدمہ کیا جانا چاہیے اور اگر وہ صحیح ہے تو جنرل باجوہ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کو کچھ نہ بتایا جائے۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عاصم باجوہ کے جواب میں تاحال احمد نورانی نے کچھ نہیں کہا ہے۔ ممکن ہے وہ اپنی خبر کے دفاع میں جلد سامنے آئیں۔ جب کہ حامد میر کا سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر وہ درست ہیں تو استعفا کیوں دے رہے ہیں اور اگر غلط ہیں تو CPEC کے چیئرمین کے عہدے سے بھی انہیں استعفا دینا چاہیے۔

آپ کا جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پر لگے کرپشن الزامات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اپنی آرا سے ہمیں کمنٹس میں آگاہ کیجئے۔