بلوچستان میں صحافت کرنا مشکل کیوں؟

کوئٹہ  پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ  میں ہمارے  بہت سارے  ساتھی  ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ اب تو   فیلڈ    اپنی جگہ یہاں تو  نیوز روم  تک محفوظ نہیں ہیں۔ نیوز ایجنسی  آفس میں  پیش آیا واقعہ اس کی ایک واضح  مثال ہے۔صوبے کے تمام صحافی شہیدوں نے سچ بولنے اور عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے جام شہادت نوش کیا۔

بلوچستان میں صحافت کرنا مشکل کیوں؟

صحافت کرنا دنیا میں ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے خاص طور پر تنازعات اور جنگی علاقوں میں، بلکہ موجودہ دور میں خطرے کے بڑھتے ہوئے عوامل کے ساتھ مشکل تر ہو گیا ہے۔ جن کا سامنا فیلڈ صحافیوں کو مخصوص حالات کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ اور اس لیے بلوچستان میں صحافت اور فیلڈ رپورٹنگ کرنا مشکل کام ہے۔ایک طرف قبائلی صوبہ ہے، قبائلی معاملات اور  جھگڑے  اپنی جگہ دوسری طرف عسکریت پسندی اور ریاستی اداروں و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف برسرپیکار بعض علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے  مسئلے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں فرقہ وارانہ اور دیگر مسائل بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ ان تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے  ہوئے صحافت کرنا آسان نہیں۔

 ان عجیب اور پیچیدہ حالات میں  رہتے  ہوئے بلوچستان کے صحافیوں کو اپنے اپنے میڈیا اداروں کے  لئے  کام کرنا اور رپورٹ کرنا  ہوتا ہے۔ ایسے  میں فیلڈ میں کام کرنے والے صوبے کے میڈیا پرسن کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مسائل کا سامنا  رہتا ہے۔ ماضی میں  تخریب کاری  کے  کئی واقعات  رونما ہوچکے ہیں جن میں  کئی   صحافی بھی خبر کی  تلاش میں  خود خبر بن گئے ہیں۔ ان واقعات میں سول ہسپتال کی  ایمرجنسی  کے باہر دو بار خود کش حملوں ، باچاخان  چوک  اور مری آباد میں  خود کش حملے  شامل ہیں۔ ان واقعات میں کئی صحافی، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر  لقمہ اجل بنے۔ نہ صرف خود کش دھماکوں   بلکہ  ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی کئی صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے  ہیں۔ انہی میں ایک نیوز ایجنسی کے بیورو چیف ارشاد مستوئی اور ان کے دو ساتھی  عبدالرسول اور یونس بلوچ بھی شامل ہیں  جنہیں  28 اگست 2014 کو ٹارگٹ کلنگ  کرکے  شہید کیاگیا۔یہ  واقعہ  تمام صحافیوں  کے لئے  واضع پیغام  ہے کہ  وہ اپنے دفاتر اور نیوز روم  میں بھی محفوظ نہیں۔ کوئٹہ کے علاوہ  اندرون صوبہ میں بھی اسی طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ جہاں  صحافیوں  کی ٹارگٹ  کلنگ ہوئی  اور میڈیا  پرسنز  کو تشدد کا نشانہ  بھی بنایا گیا ۔

ارشاد مستوئی کے بھائی عابد میر کا کہناہے کہ ارشاد مستوئی وہ واحد خوش نصیب صحافی ہے جس کے قاتلوں کو گرفتار کیا گیا۔  جس طرح ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں تیزی دکھائی گئی اسی طرح ان کو مارنے  میں بھی بہت تیزی دکھائی گئی۔ اس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی۔ حکومت نے سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کی اور ان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا انہوں نے  کمیٹی بنانے کی اعلان کیا کہ کمیٹی میں سینئر صحافی اور شہید کی فیملی سے ایک ممبر ہوگا جوملزمان سے ملاقات کرے گی اور ان سے ارشاد مستوئی اور عبدالرسول ، یونس بھائی کو شہید کرنے کی وجوہات جاننے کی کوشش کرے گی لیکن اعلان کے دس دن بعد ہی مستونگ میں مزید ملزمان کو گرفتار کرنے کیلئے سیکیورٹی فورسز کا آپریشن کیا گیا جس میں ملزمان کے کراس فائرنگ میں مرنے کا دعویٰ کر دیا گیا اور فائنل سرد خانہ کے نظر ہو جاتا۔ نو سال گزر جانے کے باوجود ہمیں آج تک پتہ نہیں چلا کہ ارشاد مستوئی کو کیوں شہید کیا گیا۔ اسے  کس جرم کی سزادی گئی۔ اب یہ صحافی اور  صحافتی تنظیموں کا  کام ہے کہ وہ  سچ کی تلاش کریں لیکن انہوں نے بھی آج تک اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی اورنہ ہی یہ معلوم  کیا گیا کہ  ارشاد مستوئی کی فیملی  کس حال میں  ہے ۔

کوئٹہ  پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ  میں ہمارے  بہت سارے  ساتھی  ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ اب تو   فیلڈ    اپنی جگہ یہاں تو   نیوز روم  تک محفوظ نہیں ہیں۔ نیوز ایجنسی  آفس میں  پیش آیا واقعہ اس کی ایک واضح  مثال ہے۔صوبے کے تمام صحافی شہیدوں نے سچ بولنے اور عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے جام شہادت نوش کیا۔ پورے ملک میں کوئٹہ پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ وہ واحد پریس کلب ہے  جس  نے شہدا فیملی ٹرسٹ بنایا  ہے ۔

اس ٹرسٹ میں ہمارے پاس جتنے بھی وسائل ہیں ان کو بروئے کار لاتے ہوئے شہدا کی فیملی کی مدد کی ہے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی بھی کوشش کی ہے کیونکہ کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ کوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہے لیکن ہم سے جتنا بھی ہوسکا  ہم نے کیا اور جتنا  ہم سے  ہو سکتا ہے وہ  ہم کررہے ہیں۔چاہے عدالت میں مقدمات سماعت کی صورت میں ہوں یہ دیگر  مالی امداد کی صورت میں، ہم  اپنے وسائل میں رہ کرکوشش کر رہے ہیں کہ شہدا کی فیملی کے تمام مسائل حل کریں۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس، کوئٹہ  پریس کلب  صحافیوں کے لئے  سیفٹی ورکشاپ، سیمینار اور  اس طرح کے دیگر تربیتی پروگرامز کا انعقاد  کررہے  ہیں۔ اخباری اور  نیوز چینلز کے مالکان سے بھی  مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے کارکنان  کے  تحفظ  کے لئے  اقدامات  اٹھائیں  اور انہیں  سیفٹی سہولیات  فراہم  کریں۔ اس کے علاوہ  میڈیا  اور اخباری دفاتر میں بھی ایسا ماحول بنایا جائے  تاکہ انہیں سٹریس سے نکالا جاسکے ۔

  بلوچستان یونین آف جرنلٹس کے سابق صدر اور سینئر صحافی سلمان  اشرف کا کہنا ہے کہ صحافی  ارشاد مستوئی بہت اچھے انسان  اور اچھے دوست تھے۔فعال صحافی  رپورٹر تھے۔انہوں نے کم عرصے میں بہت شہرت حاصل کی۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل رہے۔ وہ نجی نیوز چینل اے آر وائی کے ساتھ بھی بطور اسائمنٹ ایڈیٹر وابستہ تھے۔حکومت نے 23 مارچ2023کو ارشاد  مستوئی کو بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ سے نوازا جو کہ ان کی  صحافتی خدمات اور قربانی کا ریاستی سطح پر اعتراف ہے۔

سماجی  کارکن  علاولدین  خلجی  کہنا ہے کہ   بلوچستان جیسے معاشرے میں صحافت کرنا اور سچ بولنا  آسان کام نہیں۔ صحافی   کٹھن حالات کے باوجود معاشرے میں جو  کردار ادا کررہے ہیں وہ  کسی مشکل  کام سے  کم نہیں۔ ہم انہیں  سراہتے  ہیں اور جو   صحافی  فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان شہدا کی بدولت بلوچستان میں صحافت پروان چڑھ رہی ہے۔ آج بلوچستان کے صحافیوں کے پاس حکومت کی طرف سے کوئی سوشل سیکیورٹی نہیں ہے جو ان کی حکمرانی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

خاتون سماجی  کارکن  ثناء درانی کا   کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس  کے زیر اہتمام شہدائے صحافت کے دن  کی  مناسبت سے  منعقدہ  تقریب  سے خطاب میں کہنا تھا کہ بلوچستان میں 41 شہید صحافی نہیں بلکہ  41 خاندانوں کے سربراہ، ان کے واحد کفیل اور  پیارے  ان سے بچھڑ   گئے۔ ان  شہدا سے جڑا ہر فرد متاثر ہوا ہے۔ متاثرہ  خاندان آج بھی مالی اور معاشی  سمیت  کئی  طرح کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں اور خاص طور پر  ان  شہدا کے لواحقین  آج بھی  انصاف کے منتظر ہیں۔ یہ صورتحال حکومت کی کارکردگی پر  سوالیہ نشان ہے کہ صحافیوں کی فیملیز کو ،سیکیورٹی فورسز کے شہدا کی  فیملیوں کی طرح مراعات ملنی چاہئیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ شہید خانداروں  کی سرپرستی کیلئے معاشرے میں ہم سب  کو بھی   اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں رپورٹنگ اور فیلڈ جرنلزم اب کوئی آسان سفر نہیں رہا جو کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات میں  43کے قریب میڈیا والوں کی ہلاکت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔