مسلسل ٹارگٹ کلنگ نے خضدار کو صحافیوں کا مقتل بنا دیا ہے

خضدار پریس کلب کے موجودہ صدر محمد صدیق مینگل سے جب پوچھا گیا کہ 8 شہید صحافیوں میں سے اب تک کتنوں کے قاتل گرفتار ہو چکے ہیں یا ان کا سراغ لگایا جا چکا ہے تو انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ یہی تو ستم ظریفی ہے کہ آج تک ہمارے ساتھیوں کے قاتلوں کا سراغ تک نہیں لگایا جا سکا جس کی بنا پر صحافی خود کو غیر محفوظ  سمجھتے ہیں۔

مسلسل ٹارگٹ کلنگ نے خضدار کو صحافیوں کا مقتل بنا دیا ہے

ضلع خضدار میں سال 2006 سے 2013 تک خون کی ہولی کھیلی گئی۔ جہاں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام ہوتا رہا، وہیں صحافیوں کا خون بھی بہتا رہا۔ اس طرح خضدار صحافیوں کا مقتل بن کے رہ گیا۔ خضدار پریس کلب کے تین صدور سمیت 6 صحافی اور خضدار پریس کلب کے سابق صدر ندیم گرگناڑی کے دو جواں سال بیٹے بھی اسی دوران قتل کیے گئے۔

2006 سے 2008 تک خضدار پریس کلب کے صدر رہنے اور روزنامہ آزادی سے وابستہ خضدار پریس کلب کے سابق صدر فیض الدین ساسولی کو 27 جون 2010 کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ فیض الدین ساسولی کے بڑے بھائی عبدالکریم ساسولی نے بتایا کہ فیض الدین ساسولی ہم چھ بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا اور گھر کا لاڈلہ تھا۔ ان کے بچھڑنے کا غم ایک طرف اور اس سے بڑھ کر یہ رنج و الم ہمیں دیمک کی طرح کھا رہا ہے کہ ہمیں ان کی شادی کی تیاری اور مبارک بادی لینی تھی کہ اچانک اس کے برعکس ہمیں ان کی تعزیت لینی پڑی۔

فیض الدین ساسولی اپنے 18 سالہ بھتیجے اسرار ساسولی کے ساتھ 26 جون کو شادی کی تیاری اور شاپنگ کی غرض سے کوئٹہ چلا گیا تھا، وہاں سے واپسی پر شام 4 بجے خضدار پہنچ گیا تھا۔ بازار سے ہوتے ہوئے انہیں گھر آنا تھا لیکن سول اسپتال ایریا میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔ ایک گولی سر میں لگنے سے گاڑی بے قابو ہو گئی اور الفیصل چوک ایریا میں مین ہول کے گڑھے میں جا گری۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور جو دو موٹرسائیکلوں پر چار بتائے جاتے ہیں، پورا برسٹ مار کر بآسانی فرار ہو گئے تھے جبکہ بھتیجے اسرار ساسولی کو تین گولیاں لگی تھیں۔

عبدالکریم ساسولی کہتے ہیں کہ جب بھائی پر حملہ ہوا تو وہ گھر میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ بازار کی طرف سے شدید فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ فائرنگ کی آواز سن کر ان پر ایک عجیب قسم کی ہیبت طاری ہوئی اور وہ اس فائرنگ کو گویا کہ اپنے اوپر تصور کرنے لگا اور دل میں یہ بات آنے لگی کہ میں یہاں سے فائرنگ شروع کروں تاہم خود پر قابو پایا۔ کوئی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ میرا چھوٹا بھائی دوڑتا ہوا میری طرف آیا کہ آپ یہاں گھر میں کیا کر رہے ہو، فیض بھائی جان پر حملہ ہوا ہے تو میں ہکا بکا رہ گیا اور بھائی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے، فیض بھائی تو کوئٹہ میں ہے۔ مجھ سے کوئی اور بات کئے بغیر چھوٹا بھائی جائے وقوعہ کی طرف دوڑنے لگا اور پیچھے میں بھی چلنے لگا۔ الفصیل چوک پر پہنچ کر فیض الدین کی گاڑی پر نظر پڑی کہ وہ گڑھے میں پڑی ہے جبکہ ڈرائیور سیٹ خون آلود ہو چکی ہے۔ میں چیختے ہوئے کہنے لگا میرا بھائی کہاں ہے، کسی نے کہا کہ انہیں سامنے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

جب میں سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچا تو دیکھا کہ فیض الدین جاں بحق ہو چکا تھا اور بھتیجا اسرار شدید زخمی تھا۔ بھتیجا تو بچ گیا لیکن فیض الدین کو شادی کے سفید لباس کے بجائے کفن پہنانا پڑا۔ اس سوال پر کہ ایف آئی آر میں کوئی نامزد کیا گیا اور خاندان کی جانب سے کیس کی پیروی کس حد تک کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میری مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج ہے لیکن ہم نے کیس کی پیروی نہیں کی کیونکہ اس وقت کی پولیس تعاون کے بجائے الٹا ہمیں تنگ کرنے لگی تھی بلکہ اس وقت کا ایک ڈی ایس پی ہمارے چچا زاد بھائیوں کو شامل تفتیش کرنے اور کیس کو خاندانی رنگ دینے کی کوشش میں تھا، جس پر ہمارے خاندان نے سخت مؤقف اپنا کر پولیس کے بے جا شک کو مسترد کیا۔

محمد خان ساسولی جو کہ 2008 سے 2010 تک خضدار پریس کلب کے صدر رہے، وہ ڈان نیوز چینل اور روزنامہ زمانہ میں بطور رپورٹر کام کر رہے تھے۔ انہیں 14 دسمبر 2010 کو قتل کیا گیا۔ محمد خان ساسولی کے بھتیجے ہدایت ساسولی کے مطابق محمد خان ساسولی پریس کلب سے گھر آ رہا تھا کہ اذان مغرب کے وقت خضدار سٹی ایریا لیبر کالونی میں گھر کے گیٹ پر ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ہدایت ساسولی کہتے ہیں کہ گیٹ کے سامنے گولیوں کی بوچھاڑ تھی اور چچا موٹر سائیکل سے گر گیا تھا اور خون میں لت پت تھا۔ میں اور محمد خان ساسولی کے چھوٹے بھائی فوراً دوڑ لگا کر اس کی طرف لپکے۔ ہم نہتے تھے اس لئے حملہ آوروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تاہم ہماری ہمت کو دیکھ کر دونوں موٹر سائیکل سوار حملہ آور بھاگ نکلے۔ محمد خان ساسولی کے جسم میں تین گولیاں پیوست ہو گئی تھیں اور ایک گولی سر پر لگی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔

ہدایت ساسولی کہتے ہیں کہ چچا کو اٹھا کر میں نے سینے سے لگایا، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ میں بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا اور چیخ رہا تھا مدد کیلئے پکار رہا تھا کہ چچا کی روح میرے ہاتھوں میں پرواز کر گئی۔ ایک درد ناک صورت حال تھی۔ گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔ محمد خان ساسولی کے جسم سے خون فوارے کی طرح ابل رہا تھا اور جسم ساکت تھا۔ ان کے تین معصوم بچے خون آلود ساکت جسم سے لپٹ گئے تھے اور پوسٹ مارٹم کیلئے بھی اسے نہ چھوڑنے کی ضد کر رہے تھے کہ ہمارے ابو جان کو نہ لے جائیں۔ ان کی شہادت کے وقت ان کے بڑے بیٹے ممتاز خان کی عمر پانچ سال تھی جبکہ دوسرے بیٹے شعیب خان کی عمر تین سال اور شہباز خان دو ماہ کا تھا کہ اس کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ اب وہ بالترتیب فرسٹ ایئر، ہفتم اور پانچویں جماعت میں ہیں۔

ہدایت ساسولی حکومت، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے شکوہ کناں ہے کہ جاں بحق ہونیوالوں کے بچوں کی کفالت کے لیے نہ کسی سرکاری اور نہ غیر سرکاری سطح پر معاونت ہوئی۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے صرف مذمتی بیانات کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ٹی وی چینل کی جانب سے کوئی معاوضہ دیا گیا یا مدد کی گئی۔

29 ستمبر 2012 کو خضدار پریس کلب کے سابق صدر ندیم گرگناڑی کے دو جواں سال بیٹوں کو قتل کر دیا گیا۔ سابق صدر ندیم گرگناڑی بتاتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ خضدار کے حالات انتہائی خطرناک تھے، آئے روز کسی کے قتل یا حملے کے واقعات رونما ہوتے۔ سینیئر صحافی ندیم گرگناڑی 2012 میں خضدار پریس کلب کے صدر تھے کہ 29 ستمبر 2012 بوقت شام سات بج کر پندرہ منٹ پر اس کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کو قتل کیا گیا۔ ندیم گرگناڑی کہتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ وہ گھر سے باہر نکلنے میں محتاط ہو گئے تھے جبکہ انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ اگلا ٹارگٹ وہ ہو سکتے ہیں لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔

عبدالحق بلوچ کی موت کے 26 دن بعد یعنی 25 اکتوبر 2012 عصر کے وقت انہیں گھر سے کوئی ایک کلومیٹر فاصلے پر بازار سے گولیوں کی تھرتھراہٹ کی آواز آئی تو وہ اپنے بیٹوں کیلئے فکر مند ہو گئے کیونکہ اسی وقت ان کے بیٹے گھر سے نکلے تھے۔ جب ان کے نمبر پر کال کی تو کال ریسیو نہیں ہو رہی تھی۔ پریشانی کی حالت میں بار بار کال کرتا رہا تو بالآخر کسی نے کال ریسیو کر کے انہیں یہ اطلاع دی کہ آپ کے جگر گوشے بے رحم گولیوں کی نذر ہو گئے ہیں لہٰذا عید گاہ چوک پر فوری پہنچ جائیں۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ میرا بڑا فرزند سراج احمد موقع پر ہی دم توڑ چکا تھا جبکہ دوسرا بیٹا منظور احمد شدید زخمی تھا۔ انہیں اٹھا کر سول ہسپتال پہنچایا لیکن وہاں ڈاکٹر ہی نہیں تھے کیونکہ وہ حالات ایسے تھے کہ ڈاکٹرز بھی ہسپتال کا رخ کرنے سے کتراتے تھے جبکہ 8 اکتوبر 2012 کو ڈاکٹر داﺅد کو قتل کیا گیا تھا تو ہم نے منظور احمد کو اٹھا کر سی ایم ایچ کینٹ پہنچایا تاہم کافی دیر ہو چکی تھی اور خون زیادہ بہہ گیا تھا۔ دوران علاج ہی زخموں کی تاب نہ لا کر منظور احمد رات دو بجے ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔ بڑے بیٹے سراج احمد نے آئی آر اور کمپیوٹر سائنس میں ڈبل ایم اے کیا تھا جبکہ منظور احمد ایم ایس سی فزکس کر چکا تھا۔

روزنامہ آزادی کے رپورٹر اور خضدار پریس کلب کے رکن حاجی وصی الدین پر 10 اپریل 2009 کے دن خضدار مین بازار میں مرکزی آزادی چوک کے مقام پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اخبار ہاکر کے پاس بیٹھ کر اخبار پڑھ رہے تھے۔ ابتدائی طور پر فائرنگ سے وہ بچ گئے تھے لیکن پہلے فائر سے محفوظ تو ہو گئے لیکن قاتلوں نے حاجی وصی الدین کا پیچھا کیا تو انہوں نے پیچھے کی جانب گلی کی طرف دوڑ لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کی لیکن حملہ آور دو تین منٹ ان کا پیچھا کرتے ہوئے فائرنگ کرتے رہے جس کی بنا پر آخرکار وہ فائرنگ کی زد میں آ کر دم توڑ گئے۔

آن لائن نیوز ایجنسی سے وابستہ خضدار پریس کلب کے ممبر منیر شاکر کو 14 اگست 2011 کے دن صبح جب وہ تقریب یوم آزادی سے واپس آ کر پریس کلب جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل سواروں نے ریڈیو پاکستان ایریا میں ان پر فائر کھول دیا جس سے وہ شدید زخمی ہوا۔ فوری طور پر انہیں کراچی ریفر کیا گیا تھا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

روزنامہ انتخاب کے رپورٹر اعجاز مینگل کو 14 فروری 2014 کو قتل کیا گیا۔

چونکہ جاں بحق ہونے والے صحافیوں اور سابق صدر کے دونوں بیٹوں کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا جس کی بنا پر تمام قتل کی ایف آئی آرز نامعلوم افراد کے نام درج ہوئی ہیں۔ ان کے کیسز میں مماثلت بھی ہے۔ خضدار پریس کلب کے شہدا صحافیوں کے کیسز کے متعلق جب ایس ایچ او سٹی تھانہ عبداللہ پندرانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھاکہ ان شہید صحافیوں میں سے کسی کے کیس میں ورثا کی جانب سے پیروی نہیں ہوئی۔ Cr. pc 512 کے تحت ان کے کیسز کو دیکھا گیا ہے، اس لیے ان میں مزید پیش رفت نہیں ہوئی۔

خضدار پریس کلب کے موجودہ صدر محمد صدیق مینگل سے جب پوچھا گیا کہ 8 شہید صحافیوں میں سے اب تک کتنوں کے قاتل گرفتار ہو چکے ہیں یا ان کا سراغ لگایا جا چکا ہے تو انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ یہی تو ستم ظریفی ہے کہ آج تک ہمارے ساتھیوں کے قاتلوں کا سراغ تک نہیں لگایا جا سکا جس کی بنا پر صحافی اب بھی خود کو غیر محفوظ  سمجھتے ہیں۔ ابھی جون 2023 کی بات ہے کہ ہمارے ایک سینیئر صحافی محمد خان ساسولی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن اس دوران خضدار انتظامیہ کی جانب سے کوئی تعاون نظر نہیں آیا اور نہ ہی حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خضدار بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے جو بلوچستان کا سیاسی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس ضلع میں اگر پریس کلب اور صحافیوں کی یہ صورت حال ہے تو یہ آزادی صحافت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام ساتھیوں کی ایف آئی آرز نامعلوم افراد کے خلاف درج ہیں۔ مایوس ہو کر شہدا کے ورثا اور ہم نے ایف آئی آرز کی پیروی بھی ترک کر دی کیونکہ ہونا کچھ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2012 میں ایک ایسا بھی وقت آیا تھا جب ہمیں مجبوراً خضدار پریس کلب کو بند کرنا پڑا تھا اور یہ ایک سال تک بند پڑا رہا۔

محمد صدیق مینگل کے مطابق خضدار کے حالات اب بھی صحافیوں کیلئے سازگار نہیں ہیں۔ ہم خوف اور ہیجانی کیفیت میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری سیفٹی کے حوالے سے گورنمنٹ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔