خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو صوبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی میں موجود گروپ بندی نے صوبے میں حکومتی سطح پر بدانتظامی کی ایسی فضا کو جنم دیا ہے جس سے معاملات میں سدھار آنے کے بجائے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف موجود فارورڈ بلاک یا ناراض ممبران کا گروپ دن بہ دن مضبوط ہو رہا ہے۔ باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں ناراض ممبران اسمبلی کی تعداد 37 ہو گئی ہے۔ سب ممبران کو ایک ہی شخص کے ساتھ مسئلہ ہے جس کا نام علی امین گنڈاپور ہے اور جو اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ زیادہ تر ناراض ممبران کا گلہ ہے کہ ہماری بات نہیں سنی جا رہی، صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے اور عمران خان کی رہائی کے لئے وہ مؤقف نہیں اپنایا جا رہا جس کی بنیاد اینٹی اسٹبلشمنٹ ہے اور جس بنیاد پر تحریک انصاف کو لوگوں نے ووٹ دیے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کا رویہ بطور وزیر اعلیٰ اور بطور صوبائی صدر پی ٹٰی آئی ناقابل قبول ہو چکا ہے۔ علی امین گنڈاپور کا اس بابت میں چند دن پہلے دیا ہوا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر پارٹی کے اندر اختلافات کو تسلیم کیا ہے اور اختلاف رکھنے والوں کو سازشی کہا ہے۔ علی امین گنڈاپور کا یہ جملہ کہ 'سازشیوں کو سبق سکھاؤں گا'، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ مخالفین کا گروپ بڑا ہے۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس کو چار مرتبہ ملتوی کیا گیا ہے۔ اسمبلی اجلاس کا بار بار ملتوی ہونا بھی اختلافات کی افواہوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اسمبلی ممبران میں بے چینی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا رویہ اور اس کے بھائی کی صوبائی معاملات میں مداخلت کی خبریں بے بنیاد نہیں ہیں۔ پشاور میں موجود سیاسی پنڈتوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ پارٹی میں موجود مخالفت ہے جس کو حل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں مگر علی امین کے اس رویے کے ساتھ معاملات کو سدھارنا مشکل بن گیا ہے۔
کابینہ میں ردوبدل کی سمری جو دو ہفتے سے گورنر ہاؤس میں پڑی ہے، گورنر اس پر دستخط نہیں کر رہے اور یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ سمری پر دستخط کرنے سے بڑھ کر حکومتی سطح پر بدانتظامی میں بدل گیا ہے۔ متعلقہ محکموں کے امور ٹھپ ہو گئے ہیں۔ موجودہ وزرا کی بات نہیں سنی جا رہی۔ محکموں کے امور من مرضی یعنی آٹو سسٹم پر چل رہے ہیں۔ ان حکومتی امور کو سدھارنے کے لیے تحریک انصاف سے متعلق ایک خبر بھی گردش میں ہے کہ ممکنہ طور پر بہت جلد علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدارت سے ہٹا دیا جائے گا۔ علی امین گنڈاپور کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی وجہ ظاہری طور پر مصروفیات اور حکومتی امور کی بہتری ہو گی مگر اصل میں علی امین گنڈاپور کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ حکومتی سطح پر موجود بے چینی کو کم کیا جا سکے۔
خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات اور حکومتی ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں، نظریاتی طور پر سب کا مؤقف ایک ہے اور کچھ باتوں پر اگر اختلافات ہیں تو وہ جمہوریت کا حسن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پر سب کا اعتماد ہے، وہ بہتر طریقے سے صوبائی صدارت و وزیر اعلیٰ کے منصب کو چلا رہے ہیں۔ اسلام آبار جلسے کے لیے ان کی سرپرستی میں تمام اضلاع سے جلوسوں اور ممبران کا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں حکومتی سطح پر کچھ مسائل موجود ہیں جن کو دور کیا جائے گا اور اس کے لیے عمران خان نے گورننس کمیٹی بنائی ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔
سینیئر صحافی عرفان خان کہتے ہیں کہ جہاں تک معاملات سدھارنے کی بات ہے تو اختلافات بہت زیادہ ہیں، علی امین گنڈاپور سے لوگ ناراض ہیں، اس کی بنیادی وجہ ان کا طریقہ اور رویہ ہے جس سے بہت سارے لوگ نالاں ہیں۔ اس کی ایک اور بنیادی وجہ ناصرف علی امین گنڈاپور بلکہ ان کے بھائی فیصل امین بھی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ صوبائی معاملات، بیوروکریسی کی پوسٹنگ ٹرانسفر میں براہ راست مداخلت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے پارٹی کے لوگ ناراض ہیں۔ دوسرا اب پارٹی کے کارکنان کو یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ علی امین گنڈاپور ایک ڈیل کے تحت وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔
عرفان خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پارٹی چیئرمین کی جانب سے بنایا گیا تھا، پارٹی ورکرز کا اس سے زیادہ سروکار نہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے یہاں جو بھی حکومتیں بنی ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر نہیں بنتیں۔ میرا نہیں خیال کہ علی امین گنداپور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ اندرونی معاملات کچھ اس طرح ہیں کہ وہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو پارلیمانی سیاست سے نکال بھی نہیں سکتے تھے ان کو یہ صوبہ اس لیے دیا گیا ہے تاکہ یہ تاثر ملے کہ انتخابات شفاف تھے۔ اگر دیکھا جائے تو جو گیم کھیلی جا رہی ہے وہ فکس ہے۔ علی امین گنڈاپور کا بطور وزیر اعلیٰ انتخاب اگر دیکھا جائے تو یہ دو ماہ پہلے ہوا تھا تبھی تو عاطف خان، شہرام ترکئی اور اسد قیصر جیسے لوگوں کو راستے سے ہٹا کر قومی اسمبلی بھیجا گیا اور جو باقی تھے تیمور سلیم جھگڑا، شوکت یوسفزئی اور کامران بنگش ان کو ہروایا گیا تاکہ علی امین گنڈاپور کے لیے راستہ صاف ہو۔
صوبے میں جاری سیاسی رسہ کشی اور انتظامی بے چینی کے حوالے سے سینیئر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ ہیں، اسمبلی ممبران اور وزرا کا یہ گلہ ہے کہ پرویز خٹک اور محمود خان دور میں ہم سے مشاورت ہوتی تھی مگر علی امین گنڈاپور مشاورت نہیں کرتے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پالیسی کیا ہے، پالیسی بنا لیتے ہیں اور نافذ بھی کر دیتے ہیں مگر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ علی امین پارٹی کے صوبائی صدر نہیں بلکہ مرکزی صدر ہیں کیونکہ مرکزی طور پر بیرسٹر گوہر بہت کمزور ہیں، ان سے زیادہ مضبوط علی امین گنڈاپور ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بیرسٹر گوہر سے زیادہ بااختیار بیرسٹر سیف ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور اس وقت تواتر کے ساتھ عمران خان کے ساتھ سب سے زیادہ ملاقاتیں کر رہے ہیں، ان کی رائے کے مطابق چل رہے ہیں۔ یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کیونکہ عمران خان پارٹی کے بڑے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں لحاظ علی کا کہنا تھا کہ گورنر اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کو بھی سابقہ گورنرز کی طرح وٹس ایپ کے ذریعے دوسری جانب سے ہدایات مل رہی ہیں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے، فیصل کریم کنڈی اس پر جو بیانات دے رہے ہیں انہیں اس میں احتیاط کرنی چاہیے۔ ان کے ترجمان سے جب بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ گورنر کے پاس وقت نہیں ہے۔ حالانکہ فریال تالپور کو گلدستہ پیش کرنے کے لیے ان کے پاس وقت ہے، دستخط کرنے کے لیے نہیں۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں پالیسی کا فقدان ہے مگر یہاں تحریک انصاف کو بیانیے پر ووٹ ملا تھا اور ملے گا۔ یہاں کام نہیں ہو رہا، یہ مسئلہ ہے بھی اور نہیں بھی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اختلافات نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو سب علی امین گنڈاپور سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ کوئی جرات ہی نہیں کر سکتا کہ وہ ان کے خلاف جائے۔ اسمبلی اجلاس کا بار بار ملتوی ہونا شکیل خان کو کارنر کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ایک وجہ جلسے کے لیے تیاری کرنا تھی۔