2009 میں جب وادی سوات میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری تھا تو اس وقت کی حکومت نے سینیئر بیوروکریٹ سید محمد جاوید کو کمشنر تعینات کیا تھا۔ بنیادی طورپر سید محمد جاوید کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد صاحب بھی عالم دین اور ایک مذہبی شخصیت تھے۔ کمشنر سید محمد جاوید وضع قطع سے بھی متشرع لگتے تھے۔ ان کی لمبی ڈاڑھی تھی۔ وہ مذہبی تقریبات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
انہوں نے سوات میں طالبان کے اس وقت کے سربراہ مولانا فضل اللہ کو ایک معاہدے کے تحت غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل چلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ مالاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندی کی نشوونما میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنوں کا بڑا فعال کردار رہا تھا کیونکہ اس وقت پورے ڈویژن میں 40 کے لگ بھگ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینلز قائم تھے جنہیں بیش تر مذہبی افراد چلایا کرتے تھے۔
جب سوات میں عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہو رہا تھا تو ان دنوں کمشنر اور طالبان کمانڈروں کے مابین بڑا قریبی تعلق بن گیا تھا۔ کئی موقعوں پر دیکھا گیا کہ کمشنر ہاؤس میں سید محمد جاوید کی امامت میں طالبان کمانڈرز باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں یا کمشنر طالبان کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ تعلق ایک موقع پر اتنا بڑھا کہ کمشنر کے اپنے ساتھی اکثر اوقات کہا کرتے تھے کہ سید محمد جاوید صاحب رات کو طالبان کمشنر ہوتے ہیں جبکہ دن کو وہ حکومت پاکستان کے افسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ انہیں 'طالبان کمشنر' کے نام سے بھی یاد کیا کرتے تھے۔
سوات میں امن معاہدے کے بعد جب طالبان نے ضلع بونیر کی طرف پیش قدمی کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا تاہم سید محمد جاوید کے بارے میں اس وقت کہا جاتا تھا کہ انہوں نے آپریشن کی راہ میں مبینہ طورپر رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے طالبان کو منظم ہونے کا موقع ملا۔ اس دوران مالاکنڈ کے ایک اہم پولیس افسر نے کمشنر کے خلاف صوبائی حکومت کو ایک مکتوب بھی لکھا جس میں ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ تاہم بعد میں حکومت نے انہی شکایات کے تناظر میں مالاکنڈ سے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد سید محمد جاوید کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ایک انکوائری بھی ہوئی لیکن شاید ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔
آج جب میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے ضمن میں بیانات کو دیکھتا ہوں تو مجھے سید محمد جاوید یاد آتے ہیں۔ بیرسٹر سیف کو بھی ان کے مخالفین 'طالبان ترجمان' کے نام سے پکارتے ہیں۔
بیرسٹر سیف شاید پاکستان کے واحد ایسے سیاست دان ہیں جو کھلے عام یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ بیک وقت ریاست اور پختون خوا حکومت دونوں کے نمائندے ہیں۔ اگرچہ اصولاً یہ ممکن ہی نہیں لیکن چونکہ پی ٹی آئی کی خیبر پختون خوا حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں خود کو مکمل طور پر لاتعلق رکھا ہوا ہے لہٰذا وہ نہیں چاہتی کہ مذاکرات میں ان کا کسی صورت نام آئے۔
حالانکہ اصولی طور پر وزیر اعلیٰ کا معاون خصوصی وزیر اعلیٰ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شہر کا دورہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی بیان جاری کر سکتا ہے۔
معاون خصوصی کے حالیہ دنوں میں جاری کردہ ایک تازہ بیان نے لوگوں کو مزید چکرا کر رکھ دیا ہے۔ بیرسٹر سیف نے کالعدم تنظیموں بالخصوص حافظ گل بہادر کا نام لے کر ان کو پیش کش کی ہے کہ اگر ان کی ٹی ٹی پی سے کوئی کشیدگی ہے تو وہ (محمد علی سیف) ان کے مابین ثالثی کرانے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے اس تازہ ارشاد کے بعد سیاسی جماعتیں ایک مرتبہ پھر سے ان پر یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ ان کو یہ حق دیا کس نے کہ شدت پسند تنظیموں کے مابین ثالثی کی کوشش کرے جبکہ وہ ایک غیر منتخب نمائندے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے بیانیے میں بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اس سال جون میں بیرسٹر محمد علی سیف دو مرتبہ قبائلی جرگہ لے کر کابل گیا اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی دو نشستیں ہوئیں۔ لیکن انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اگرچہ تین مہینے تک جنگ بندی قائم رہی لیکن اب ایک مرتبہ پھر سے حکومت اور طالبان کے مابین شدید لڑائی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بڑی کامیابی ہے جسے بنیاد بنا کر معاون خصوصی کالعدم تنظیموں کے مابین ثالثی کرانے کی پیش کش کر رہے ہیں؟ ان کو حکومت اور ریاست کی جانب سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی جو ذمہ داری سونپی گئی تھی کیا اس میں وہ کامیاب رہے؟ کیا طالبان کے حملے بند ہوئے یا امن معاہدہ طے پا گیا؟ اگر جواب نفی میں ہے جو کہ ہے تو پھر اتنا بڑا شوشا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
کسی نے ان سے پوچھا بھی کہ ان کو یہ اختیار کس نے دیا کہ کالعدم تنظیموں کو اتنی بڑی پیشکش کرے؟ تو جواب میں بیرسٹر سیف نے ارشاد فرمایا کہ ان کی حیثیت کے بارے میں سراج الدین حقانی سے پوچھا جائے کہ وہ کون ہیں تو وہ ان کو بتا دیں گے۔ خلیفہ سراج الدین حقانی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔
بیرسٹر سیف کو اگر طالبان تنظیموں سے تعلق پر اتنا ہی گھمنڈ ہے تو پھر تو مذاکرات کامیاب ہونے چاہئیں تھے، ان میں ناکامی کیوں ہوئی؟
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے غیر ضروری بیانات سے اجتناب کیا جائے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔
حکومت کو طالبان سے مذاکرات کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔ وزیرستان سے لے کر سوات تک عوام امن کی حمایت میں اور شدت پسندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ شاید ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں عوام حکومت اور ریاستی اداروں سے امن کا تقاضا کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک واضح اور اہم پیغام ہے جس کے بعد حکومت اور ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی بنیاد پر پالیسیاں وضع کریں۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔