کرونا وائرس: مفروضے، اندیشے، حقائق اور تقاضے

کرونا وائرس: مفروضے، اندیشے، حقائق اور تقاضے
قارئين! ایک دھوبی کی بیوی سے ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ تم آج اتنی خوش کیوں ہو۔ دھوبی کی بیوی نے کہا کہ آج چُنا مُنا پیدا ہوا ہے۔ ملکہ نے اس کو مٹھائی پیش کرتے ہو کہا ماشااللہ پھر تو یہ لو مٹھائی کھاؤ۔ چُنا مُنا کی پیدائش کی خوشی میں۔ اتنے میں بادشاہ بھی کمرے میں داخل ہوا۔ تو ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا ملکہ عالیہ آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں؟ کوئی خاص وجہ؟ ملکہ نے کہا عالی جاہ! یہ لیجیے مٹھائی کھائیں آج چُنا مُنا پیدا ہوا ہے۔ اس خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے۔

بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی۔ بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آؤ۔ بادشاہ باہر دربار میں آیا، بادشاہ بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو واہ واہ کی آوازیں سنائی دینے لگيں کہ ظل الہی مزید خوش ہو لیں۔ ظل الہی نے کہا سب کو مٹھائی بانٹ دو۔ مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا بادشاہ سلامت یہ آج مٹھائی کس خوشی میں آئی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ آج چُنا مُنا پیدا ہوا ہے۔ ایک مشیر نے چپکے سے وزیراعظم سے پوچھا کہ وزیر باتدبیر ویسے یہ چُنا مُنا ہے کیا شے؟

وزیراعظم نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تو علم نہیں ہے کہ یہ چُنا مُنا ہے کیا بلا۔ بادشاہ سے پوچهتا ہوں۔ وزیراعظم نے ہمت کر کے پوچھا کہ بادشاہ سلامت ویسے یہ چنا منا ہے کون؟ بادشاہ سلامت تھوڑا سا گھبرائے اور سوچنے لگے کہ واقعی پہلے معلوم تو کرنا چاہیے کہ یہ چنا منا ہے کون۔ بادشاہ نے کہا مجھے تو علم نہیں کہ یہ چنا منا کون ہے۔ میری گھر والی آج بہت خوش تهی، خوشی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آج چنا منا پیدا ہوا ہے۔ اس لئے میں اس کی خوشی کی وجہ سے خوش ہوا۔ مگر میں اس سے پوچھوں گا۔ بادشاہ گھر آیا اور بیوی سے پوچھا کہ ملکہ عالیہ یہ چنا منا کون ہے جس کی وجہ سے آپ اتنی خوش تھیں اور جس کی وجہ سے ہم اور ہمارا دربار بھی خوش ہے۔

ملکہ عالیہ نے جواب دیا کہ مجھے تو علم نہیں کہ چنا منا کون ہے۔ وہ تو دھوبی کی بیوی بڑی خوش تھی کہ آج چنا منا پیدا ہوا ہے۔ اس لیے میں خوش ہوں۔ میں بھی اس کی خوشی میں شریک ہوئی۔ دھوبی کی بیوی کو بلایا گیا کہ تیرا ستیاناس ہو یہ بتا کہ یہ چنا منا کون ہے؟ جس کی وجہ سے ہم نے پوری سلطنت میں مٹھائیاں بانٹیں۔ دھوبی کی بیوی نے کہا کہ چنا منا ہماری گدھی کا بچہ ہے جو کل پیدا ہوا ہے۔

قارئین! ایسا ہی حال ہماری پیاری عوام اور شتر بے مہار سوشل میڈیا کا ہے۔ ہم ہر سنی سنائی بات کو بغیر غور و فکر اور تحقیق کیے جنگل ميں آگ کی طرح پھیلا دیتے ہیں۔ سنجیدہ اور خطرناک معاملات کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں لیا جاتا ہے۔ افواہوں اور مفروضوں کا بازار گرم ہے۔ کرونا جو ہمارے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، وہ بھی سوشل میڈیا کی اٹھکلیوں سے آزاد ںہیں۔ چند دن قبل سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہوتی ایک پوسٹ پڑھی کہ کرونا دراصل انتہائی مہارت اور سائنسی طریقہ کار سے پھیلایا گیا ہے۔ اس سازش میں ایک یا چند ممالک کے چند خواص شامل ہیں اور اس سازش کا مقصد ہر مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر عوام کو اپنی جانوں کے لالے پڑوا کر اپنے اقتدار اور اختیارات کو دوام بخشوانا ہے۔ مگر تمام تر مفروضوں اور افواہوں کے باوجود کرونا ایک خطرناک حقیقیت ہے اور بڑی سفاکیت کے ساتھ انسانیت کا شکار کر رہی ہے۔

قارئین! چھ امریکی صدور کے مشیر رہنے والے انفیکشن کے امریکی ماہر ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس اب تک سامنے آنے والے کسی بھی وائرس سے زیادہ خطرناک ہے، انہوں نے اس مہلک وائرس کے متعلق کئی ایسے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا جن پر اکثر لوگ یقین کرتے ہیں۔ انفیکشن کے امریکی ماہر ڈاکٹر فاؤچی چھ امریکی صدور کے مشیر رہ چکے ہیں اور کئی عالمی وباؤں کو بذات خود دیکھنے اور سمجھنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا اس سے پہلے منظر عام پر آنے والے کسی بھی دوسرے وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ وائرس انتہائی تیزی کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے اور کسی بھی دوسرے وائرس سے دس گنا تیزی کے ساتھ اپنے جیسے دوسرے وائرس پیدا کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس خطرناک تھا لیکن ایبولا صرف انتہائی بیمار شخص کے انتہائی قریب رہنے سے دوسرے بندے میں منتقل ہوتا تھا لیکن یہ وائرس بہت مختلف ہے۔ یہ جلدی پھیلتا ہے اور متاثرہ شخص کو ہاتھ لگائے بغیر بھی دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح کے وائرس سے واسطہ نہیں پڑا جو کسی بھی موسم میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسرے وائرس کے مقابلے میں کرونا وائرس کسی بھی موسم میں دس گنا تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کرونا وائرس سانس کے ذریعے پھیلتا ہے، متاثرہ شخص چھینکے، جمائی لے یا کھانس لے، اس کے منہ سے نکلنے والے آبی بخارات ہوا میں معلق رہتے ہیں اور قریبی کسی بھی انسان کے سانس میں شامل ہو کر اسے متاثر کر سکتے ہیں۔

امریکی سائنسدان کا مزید کہنا ہے کہ اگر متاثرہ شخص منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسے، بظاہر تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن وہ آپ سے ہاتھ ملائے یا دروازہ کھولے، آپ یہ کہہ کر بالکل مطمئن نہ ہوں کہ آپ نے ساری چیزیں صاف کر لی ہیں۔ ڈاکٹر فاؤچی کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی دروازہ بند کرے اور 15 منٹ بعد آپ دروازے کو چھو لیں، وائرس آپ میں منتقل ہوسکتا ہے۔ کرونا وائرس کسی بھی سطح پر کئی گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے۔ اگر آپ سچ مچ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو سماجی رابطے سے دور رہیں، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں، چھوڑ دیں اسے اور جتنا ہوسکے اپنے ہاتھ دھوتے رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ نوجوان اس وائرس سے متاثر نہیں ہوتے یا نوجوان اس کی شدت کو سہہ جاتے ہیں۔ نوجوان ہونے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ آپ اس وائرس سے محفوظ ہیں۔ ہم نے کئی ایسے کیسز دیکھے ہیں، اکثر نوجوان اس بیماری کو برداشت کر لیتے ہیں لیکن کئی نہیں کر پاتے۔ تیس یا چالیس سال کے جوان بھی بیمار ہو کر ہسپتال پہنچ جائیں تو انہیں آئی سی یو میں رکھنا ضروری ہے۔

امریکی سائنسدان کا کہنا تھا کہ دوسرا مسئلہ جو زیادہ اہم ہے، اگر آپ معمولی بیمار ہیں اور وائرس سے متاثرہ ہونے کی معمولی علامات ظاہر ہوئی ہیں، آپ کسی دوسرے ایسے شخص کو متاثر کر سکتے ہیں جس کی قوت مدافعت اس بیماری کو سہنے کے قابل نہیں، تو آپ کی وجہ سے وہ بندہ مر سکتا ہے۔

ڈاکٹر فاؤچی نے اس بات کی بھی تردید کر دی کہ صرف دو ہفتے قرنطینہ کرنے سے بیماری کو روکنا ممکن ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب بیماری کے پھیلاؤ کی شدت میں کمی آگئی ہو اور اس کا گراف اونچائی کی آخری حد کو چھو کر واپس نیچے کی طرف آرہا ہو۔ تب دو ہفتوں تک لاک ڈاؤن کرنے سے مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے چین اور کوریا کی مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ ان دونوں ملکوں کو یہ وائرس محدود کرنے میں آٹھ ہفتوں سے زیادہ وقت لگا۔ ڈاکٹر فاؤچی نے اس افواہ کی بھی تردید کی کہ ایک بار اس مرض میں مبتلا ہونے والا شخص دوبارہ مبتلا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے اور جامع تحقیق کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

قارئین! کرونا وائرس بہت زیادہ خطرناک ہے۔ اٹلی، سپین، امریکہ، فرانس، برطانیہ سمیت کرہ ارض کے تقریباً ہر ملک میں کرونا اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ آج امریکہ میں اموات کی تعداد چین سے زیادہ ہوچکی ہے۔ کئی ممالک میں تو میتیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں نہیں ہیں سو فوجی ٹرکوں میں میتیں بھر کر بغیر کسی غسل و کفن اور آخری رسومات کے دفن کی جا رہی ہیں۔ ایران میں ہر دس منٹ میں کرونا سے ایک موت ہو رہی ہے۔ وہ دوائیں خریدنے کے لیے ساری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے کہ بس پابندیاں ہٹا لو۔

اب آتے ہیں پاکستان میں جہاں پوری قوم کو یہ سب کھیل تماشا لگ رہا ہے، کچھ چیخ رہے ہیں کہ یہ سب بند کیوں کیا گیا ہے تو کچھ شہر بند ہونے کی خوشی میں دعوتیں کررہے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں اصل خطرہ کیا ہے؟ اصل خطرہ یہ ہے مرض جب بگڑتا ہے تو سوائے وینٹی لیٹر کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا اور وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ پورے ملک میں وینٹی لیٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے اور اب اگر یہ وبا مزید پھیلتی ہے، جو کہ پھیل رہی ہے، مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تو ان میں سے ایک خاطر خواہ تعداد کو وینٹی لیٹر درکار ہوں گے۔ ملک کے اندر میسر وینٹی لیٹر تو اس ملک کی اشرافیہ کی ضرورت کے لیے بھی ناکافی ہیں کجا یہ کہ عام آدمی کو مل جائیں۔ طبی عملے کے لیے حفاظتی کٹس کی بھی کمی ہے۔

کروڑوں کی آبادی والے ملک میں فقط ہزاروں افراد کے ہی ٹیسٹ ہو پائے ہیں جس کی وجہ سے اعلان شدہ اور اصل تعداد میں نمایاں فرق کا اندیشہ ہے۔ وبا کی سنگینی کو دیکھ کے ہی سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور مارکیٹیں بند کرنے کے احکامات جاری کیئ گئے مگر عوام کا تعاون متاثر کن نہیں۔ اب بھی اگر عوام نے سنجیدگی اختیار نہیں کی تو میرے خیال سے ایمرجنسی نافذ کر کے پورے پاکستان میں کرفیو لگا دینا چاہیے۔

مجھے معلوم ہے کہ معاشی نقصان بے حد شدید ہوگا یہاں آجر سفاک ہے، دوکاندار اپنے ملازم کو بغیر کام کے تنخواہ نہیں دے گا۔ دیہاڑی والے مزدور کا چولہا کئی دن سے بند پڑا ہے لیکن اگر یہ نہیں کریں گے، تو تصویر کا دوسرا رخ بھیانک ہے۔ یاد کریں ذرا ہیٹ اسٹروک کو، وہ صرف ایک شہر کراچی کی روداد تھی، چار دن میں حشر یہ تھا کہ نہ کفن تھا نہ دفن کرنے والے تھے۔ مردہ خانے بھر چکے تھے۔

قارئین! اب کی بار کا دشمن زیادہ خطرناک، سفاک اور سنگدل ہے۔ اس کو ہرانے کے لیے وقت ضائع کیے بغیر سخت اور انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں