پاکستان میں طاقت کا کھیل جہاں ماضی کے دشمن آج کے دوست بن چکے ہیں

پاکستان میں طاقت کا کھیل جہاں ماضی کے دشمن آج کے دوست بن چکے ہیں
وطن عزیز کی سیاست ناممکنات کا کھیل ہے۔ یہاں کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں۔ کل جو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گربیاں تھے وہی آج باہم شیر و شکر ہو چکے ہیں۔ اسی لیے یہ نظارہ چند دنوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جو لوگ کل تک ایک دوسرے کے حریف تھے وہ آج ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرنے لگے ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ پیپلز پارٹی کا دور تھا جب میمو گیٹ کا ایک سکینڈل خبروں میں آیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ وہ بہت متحرک چیف جسٹس تھے۔ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف بے شمار ازخود نوٹس کے مقدمات ان کی عدالت میں زیر سماعت رہتے تھے۔ ایک ایسا ہی مقدمہ میمو گیٹ کا بھی تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی ہئیت مقتدرہ سے مدد مانگی تھی کہ پاکستانی فوجی جنرل کے خلاف ہماری مدد کی جائے۔

ایک امریکی فوجی آفیسر مائیکل مولن کو اس وقت کے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ایک مراسلہ لکھا تھا جس میں جمہوری حکومت کو پاکستان کی فوج سے بچانے کی بات درج تھی۔ اس مراسلے پر ازخود نوٹس ہوا۔ نواز شریف جمہوری حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ چلے گئے تھے۔ عاصمہ جہانگیر مرحومہ نے حسین حقانی کی وکالت بھی کی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار چودھری نے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے جانچ کرنی تھی کہ حسین حقانی کا امریکی فوجی اہلکار مائیکل مولن کو لکھا گیا مراسلہ سچ پر مبنی ہے یا جھوٹ ہے۔

اس عدالتی کمیشن کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے اس مراسلے کو حقیقت قرار دیا تھا اور جمہوری حکومت کو جھوٹا قرار دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہئیت مقتدرہ کے نزدیک تھے اور زرداری صاحب اس وقت ہئیت مقتدرہ سے بہت دور تھے۔

اب ان آنکھوں نے ایک اور ہی منظر دیکھا ہے۔ ایک جانب پارلیمنٹ میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب چل رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب آئین کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ آئین پاکستان میں درج 90 دنوں کے اندر الیکشن کرانے کے عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ آصف علی زرداری براجمان تھے جن کے خلاف ماضی میں وہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ آصف علی زرداری کی حکومت فوج کے خلاف سازش میں ملوث تھی۔

ادھر حسین حقانی جو کسی وقت میں پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کے نزدیک برے تھے اور ان کی کتاب 'پاکستان مُلا اور ملٹری کے درمیان' کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا، وہ ہئیت مقتدرہ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کی ایک مبینہ ملاقات کا بھی تذکرہ ہے۔ اس ملاقات میں مبینہ طور پر ان کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ امریکی ہئیت مقتدرہ میں لابنگ کریں کہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری حکومت کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے خلاف ہیں جبکہ فوجی قیادت یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ہے وطن عزیز کی سیاست میں ناممکنات کا کھیل۔

حرف آخر آزاد کشمیر کی عدالت عالیہ نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کے کیس میں نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان کا تعلق تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رپورٹ پیش کی ہے کہ آپ کے حکم کے برعکس وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ نے پنجاب میں الیکشن کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب دیکھیں ادھر توہین عدالت کے جرم میں کیا فیصلہ ہوتا ہے!

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔