پی آئی سی حملہ: ایک صحافی نے کیا دیکھا؟

بدھ کے روز پی آئی سی میں کوریج کے دوران وکیلوں کا ایک جتھا میری گاڑی کے پاس آیا اور غصے میں پوچھا کہ یہاں جی این این کی ٹیم کو کون ہیڈ کررہا ہے؟ ساتھ ہی ایک وکیل بولا کہ رپورٹر کون ہے ادھر؟ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا شخص بول پڑتا میں نے جواب دیا بھائی ہمیں تو معلوم نہیں معاملے کا، رپورٹر پی آئی سی کے اندر ہے ڈی آئی جی کے ساتھ۔

دوسرے وکیل نے یوٹیوب سے جی این این کی لائیو سٹریمنگ نکالی تو غالبا ذوالقرنین رانا (ہیلتھ رپورٹر) کا بیپر (ٹیلی فونک بیان) چل رہا تھا۔ ساتھی وکیل نے شاید کانوں میں اسے سمجھایا کہ یہ وہ بندہ نہیں ہے، میں نے شکر ادا کیا کہ اس دوران سی این آر (سینٹرل نیوز روم) نے مجھے لائن پر نہیں لیا تھا، اگلا فیصلہ میں نے یہ کیا کہ اپنی ڈی ایس این جی (ڈیجیٹل سیٹلائٹ نیوز گیدرنگ) گاڑی کو وہاں سے دور ریس کورس پارک کے عقب میں ذرا چھپا کر لگوا دیا۔

26043/

معاملے کی سنگینی دیکھتے ہوئے میں مائیک پہلے ہی چھوڑ چکا تھا۔ نیوز روم سے بارہا ہدایت ملی کہ آپ کیمرہ اور مائیک کیساتھ ساٹس (لوگوں کے تاثرات) ریکارڈ کر کے بھجوائیں مگر میں نے موبائل سے کام کرنے میں ہی عافیت جانی۔ خیر اسی اثناء میں پولیس کی بھاری نفری پی آئی سی کے اندر وکلا پر ٹوٹ پڑی تھی۔ پہلے وکلا ڈاکٹروں کی پٹائی میں مصروف تھے تو اب دھلائی کی باری وکلا کی تھی، جو بھاگ رہے تھے۔ اسی بھاگم بھاگ میں کئی بار ایسا ہوا کہ آنسو گیس کی شیلنگ بھی ہوئی اور پتھراؤ بھی ہوا۔ کئی بظاہر مہذب وکلا بشمول خواتین وکلا کو اینٹیں اور پتھر ہسپتال کے اندر مارتے ہوئے بھی دیکھا۔ کئی دفعہ تو اینٹ اور سر کا فاصلہ بس بال برابر ہی رہا۔ دو تین دفعہ ایسا بھی ہوا جب ویڈیو بناتے ہوئے وکلا کی نظر مجھ پر پڑی اور موبائل کھینچ لیا گیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=lVsFleYjKkc

خوش قسمتی سے ہر بار منت سماجت کر کے واپس لینے میں کامیاب رہا۔ جب پولیس وین کو آگ لگائی جا رہی تھی تو اس وقت وکلا کے چہروں پر درندوں کی جیسی وحشت دیکھ کر یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ لوگ اس حد تک جائیں گے.۔ اس منظر کی ویڈیو بناتے وقت بھی ہم صحافیوں کو زد و کوب کیا گیا۔ کئی مریضوں کے لواحقین سے ملا، مجموعی طور پر یہی تاثر ملا کہ وکلا نے اندر داخل ہو کر نہ صرف ڈاکٹروں پر تشدد کیا بلکہ، پی آئی سی کے در و دیوار کو بھی نہ بخشا۔

اس دوران لواحقین نے اگر دہائیاں دیں تو انہیں بھی پٹخا گیا، سڑک پر راہگیروں کو وکلا نے اپنی پینٹ کے بیلٹس سے پیٹا۔ ہماری ایک خاتون رپورٹر عنبر قریشی پر مرد وکلا نے نہ صرف تشدد کیا بلکہ ان کا موبائل فون بھی چھینا گیا جو ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ ہمارے کیمرہ مین فرید ملک سے کیمرہ چھین کر انہیں تشدد کا شکار بنایا گیا۔

یہ سب مناظر ہم نے کسی کمرے میں بیٹھ کر کور نہیں کئے بلکہ ہجوم کے درمیان رہ کر نہ صرف چوری چھپے ویڈیوز بنائیں بلکہ آڈیو بیپرز کے ذریعے پبلک تک بھی انفارمیشن پہنچاتے رہے۔

صحافی عموما جہاں بھی جاتے ہیں اکٹھے ہوتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں. لیکن اس لمحے جیسے کہرام مچ چکا تھا۔ میں کئی بار ایسے صحافی دوستوں کے آمنے سامنے بھی آیا جن سے ہفتوں ملاقات نہ تھی۔ مگر یقین جانیے سلام دعا تک کرنے سے رہے، کوئی شخص ایسا نہ تھا جو تسلسل کیساتھ دس سیکنڈ ایک جگہ پر کھڑا ہو سکے۔ اس لمحے اگر کوئی مرکزی دروازے پر تھا تو اگلے ہی لمحے وہ ہسپتال کے کسی کمرے میں نظر آتا، اس دوران سر کے اوپر سے اینٹوں کا تبادلہ برابر جاری رہا۔

پولیس, وکلا اور ڈاکٹروں کی آپس میں آنکھ مچولی، پکڑ دھکڑ دو سے تین گھنٹے جاری رہی، اس سب کے بیچ صحافیوں کی اڑان الگ تھی، صحافی ساری کہانی میں ایک ایسا طبقہ تھے جو صرف جان کی امان مانگتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=VCmmUK7-788

کئی ایسی خواتین کو فون پر گفتگو کرتے سنا جو گھر والوں کو اطلاع دے رہی تھیں کہ ”ہسپتال پر وکیلوں کا حملہ ہو گیا ہے۔ رشید کو ڈرپ لگی ہے، اسے بیڈ پر چھوڑ کر ہی باہر آئی ہوں۔ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے“ جلدی آئیے! ہمیں بچائیے!.ایسے ہی ایک معمر شخص جنہوں ڈرپ لگی تھی انہیں اپنے پاؤں پر ایمرجنسی سے چل کر باہر نکلتے جان بچاتے بھی دیکھا۔ ایک بزرگ بولے 'بچیا کی پچھناں ایں دیکھدا نیں پیا'

پی آئی سی میں معاملہ ٹھنڈا پڑا تو شام مجھے ہائی کورٹ کے سامنے وکلا احتجاج کور کرنے کی ہدایت دی گئی، 6 بجے وہاں پہنچا تو صورتحال یہ تھی کہ درجن بھر نوجوان وکلا نے مال روڈ کے جی پی او چوک کو چاروں اطراف سے بند رکھا تھا اور اعلان ہو رہا تھا کہ اب وکلا کورٹس میں پیش نہیں ہوں گے، جب تک غنڈہ گرد پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اورر انکے بے قصور ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔ ساتھ ہی میڈیا کو گالیاں بکی جا رہی تھیں، میں اپنی گاڑی ریگل چوک لگا کر خود پیدل جی پی او میں احتجاجی وکلا کے درمیان موجود تھا، ایک نوجوان بولا آج میڈیا والوں نے بالکل غلط رپورٹنگ کی ہے۔ اب اگر وہ یہاں آئے تو انکی خوب خبر لیں گے۔ میں نے اندھیرے میں موبائل سے چوری چھپے دو چار ویڈیوز بنائیں اور بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔

 

اکرام راجہ صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں