برداشت جمہوریت کا حسن اور زیور ہے۔ دنیا کے وہ ملک جنہوں نے ترقی کی ہے، اس کی وجہ بنیادی طور پر یہی برداشت ہے۔ ان مہذب معاشروں جن کو لوگ صرف برطانیہ، امریکہ اور یورپ سمجھتے ہیں، ان ملکوں میں برادشت کا مادہ پایا جاتا ہے۔ وہ ممالک جو ترقی کر چکے ہیں اس کی وجہ یہی حکومتیں ہیں جو عوامی رائے کے نتیجے میں برسر اقتدر آئی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ حکمران بنتے ہیں اور ہر ذی شعور انسان بات کرنے اور بحث و مباحثہ کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔
برداشت کا مادہ کیسے جنم لیتا ہے؟ سولہویں صدی سے پہلے یورپی معاشرے کو پرکھیں تو جہالت عروج پر نظر آئے گی۔ مگر جیسے جیسے بحث و مباحثہ عام ہوتا گیا، تعلیم کے شعبے پر کیا جاتا رہا، اور ساتھ ساتھ سائنس اور آرٹس میں آسمان کی بلندیوں کو چھوا جانے لگا تو صرف برطانیہ جو ایک چھوٹا سا ملک ہے دنیا پر راج کرنے لگا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب سلطنتِ برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ترقی یافتہ دنیا میں بات کرنے کی آزادی سے لے کر تنقید کرنے کی آزادی تک، زندگی کے ہر شعبہ میں آزادی ہے۔
اس کے مقابلے میں ہمارے پاکستانی معاشرے میں بات کرنا اور نئی سوچ کا پرچار کرنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ خرابیاں حد سے تجاوز کر چکی ہیں۔ انصاف تو ملنے سے رہا، صحت کے شعبے کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، اور سیاست اتنی بدنام کہ کوئی سلجھا ہوا آدمی سیاست میں اپنے آپ کو سیاہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں بات کرنے پر پاپندی اور سوچ اجاگر کرنے پر کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
اس معاشرے میں فتوے لگ جاتے ہیں کہ فلاں روس کا ایجنٹ ہے، وہ ہندوستان کے ٹکڑوں پر پلنے والا ہے، اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے، مگر جالب صاحب نے کیا خوب فرمایا:
خطرہ ہے زرداروں کو گرتی ہو دیواروں کو
خطرے میں اسلام نھی
عروج اورنگزیب اور کچھ جوانوں نے جب بسمل عظیم آبادی کی نظم پڑھی سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے تو سوشل میڈیا پر ایک مہم چلی کہ یہ سب ہندوستانی ہیں۔ اسمبلی جہاں پڑھے لکھے لوگ موجود ہوتے ہیں، ان میں بھی برادشت نہیں ہوتی، جہاں لوگوں کو اس لئے بٹھایا جاتا ہے کہ گالیاں دیں تو یہاں جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے؟
72 سال ہو گئے پاکستان کو بنے ہوئے مگر اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو پایا کہ ہمیں کون سا نظام چاہیے۔ مگر اس ملک میں ہم ہر مسئلے کو شریعت کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ کوئی ٹھیک نہیں ہونا چاہتا۔ جن معاشروں نے ترقی کی ہے، کیا وہاں شریعت ہے؟
اصل مسئلہ برداشت کی عدم موجودگی ہے۔ مکالمے کی روایت کو پروان چڑھائیں، معاشرہ خود بخود آگے بڑھ جائے گا۔