’آدھی رات کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ ترامیم واپس لے لیں‘، خرم دستگیر کا آرمی ایکٹ ترمیم کے حوالے سے انکشاف

’آدھی رات کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ ترامیم واپس لے لیں‘، خرم دستگیر کا آرمی ایکٹ ترمیم کے حوالے سے انکشاف
لاہور: ہفتے کی صبح افکارِ تازہ ThinkFest لاہور میں پارلیمنٹ کی پاکستان کی موجودہ سیاست میں افادیت کے موضوع پر منعقد کی جانے والی ایک نشست کے دوران مسلم لیگ نواز کے رہنما خرم دستگیر خان نے بتایا کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے اپنی سفارشات تیار کر رہی تھیں، اور مسودہ تقریباً تیار ہو چکا تھا جس کے بعد حکومتی وفد اس کمرے میں آیا جہاں یہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں اپنے مسودے پر کام کر رہی تھیں۔ انہیں نے بتایا کہ ان کی یادداشت کے مطابق رات 12 بجے کے قریب یہ ملاقات ختم ہو گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ تاہم، اس وقت تک ترمیمی مسودہ پیش نہ کیے جانے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن پھر اگلی صبح جب پارلیمنٹ میں پہنچے تو پیپلز پارٹی نے بھی اپنی ترامیم واپس لے لیں اور اس حوالے سے مسلم لیگ نواز کی طرف سے بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ پورا ایکٹ جیسے تھا، ویسے ہی پاس ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غالباً آدی رات کے بعد ایسا کچھ ضرور ہوا ہوگا جس کی روشنی میں ترامیم واپس لے لی گئیں۔

نیا دور کی نیوز ایڈیٹر ایلیا زہرا کے سوال کہ کیا ان کے اوپر اس ترمیم کے حوالے سے کوئی دباؤ تھا، خرم دستگیر کا جواب تھا کہ اگر کوئی دباؤ تھا بھی تو ان کے لیڈران کے علم میں ہوگا کیونکہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی، اور نہ ہی انہوں نے کسی بھی جانب سے خود پر کوئی دباؤ آتا محسوس کیا۔

پارلیمنٹ کی افادیت کے حوالے سے گوجرانوالہ سے مسلم لیگی ایم این اے اور سابق وزیر کا کہنا تھا کہ یہ وہ واحد ادارہ ہے ملک کا جہاں ملک کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے منتخب نمائندے جمع ہوتے ہیں اور یہ پاکستانی جمہوریت کا آخری قلعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فسطائی سوچ کے خلاف جب کبھی بھی مزاحمت آئے گی، وہ اسی ادارے کی جانب سے آئے گی کیونکہ یہ پاکستان کی تمام قومیتوں کے ووٹ کا امین ہے۔



اس موقع پر پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب اور سابق بیوروکریٹ اور پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار جاوید جبار نے پاکستان کی پارلیمان کے انتظامی ڈھانچے اور اس کی آپریشنل خامیوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ جاوید جبار نے اس مسئلے کی نشاندہی بھی کی کہ پارلیمان کے اندر لوگ سیشن میں موجود نہیں ہوتے اور اگر عوام کو ان کے نمائندوں کی طرف سے مسائل کے حل میں دلچسپی نظر نہیں آئے گی تو ان کا اعتماد ایوان سے اٹھ جائے گا۔ احمد بلال محبوب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کورم کی پابندی زیادہ تر ممالک میں نہیں ہے، لہٰذا یہاں بھی اس کی اہمیت قانون سازی کے حوالے سے ضرور ہے لیکن اس موضوع پر مزید بات ہونی چاہیے۔

خرم دستگیر نے اس سلسلے میں تجوی دی کہ مغربی ممالک کی طرح اگر پارلیمان کا سیشن سارا سال جاری رہے جس میں پیر سے لے کر جمعرات تک مسلسل سیشن ہو جب کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار نمائندوں کے اپنے حلقوں کے لئے ہوں تو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو مسلسل سیشن میں رہنا چاہیے۔

افکارِ تازہ ThinkFest کا دوسرا اور آخر روز الحمرا آرٹس سینٹر لاہور میں اتوار کے دن بھی جاری رہے گا۔