مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ عمران خان کا پاکستان پر حملہ کرنے کے فاشسٹ پلان تھے، وہ ہم سب کو نااہل کروانے والے تھے۔
نیو ٹی وی پر طلعت حسین کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے خرم نے کہا کہ عمران خان کا جو پروگرام تھا، ہم سب نے اس سال کے آخر میں نااہل ہو جانا تھا۔ تمام اپوزیشن کی لیڈرشپ کے ساتھ یہ ہونا تھا۔ ان کا تو خیال تھا کہ میں صفایا کر دوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔
طلعت حسین نے ان سے سوال کیا کہ یہ آپ کا خدشہ ہے یا معلومات ہیں؟ اس پر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سنجیدہ معلومات تھیں۔ لوگوں کو بھول جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کہا گیا تھا کہ ہم نیب کے 100 جج اور رکھیں گے اور ان کیسز کو جلد از جلد نمٹائیں گے۔
سینیئر صحافی کے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے خرم نے کہا کہ بڑی سطح پر نااہلیاں ہونے جا رہی تھیں۔ شہباز شریف سے شروع ہو کر نیچے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور ہم سب۔ اور صرف مسلم لیگ ن کے نہیں۔ جو ہمارا اتحاد ہوا وہ صرف اسی وجہ سے ہوا کہ عمران خان کے فاشسٹ (فسطائی) پلانز تھے اس ملک پر حملہ کرنے کے۔
گوجرانوالہ سے ن لیگی رہنما نے یہ بات اس وقت کی جب ملک کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کس عقلمند نے کہا تھا آپ کو کہ یہ ڈیڑھ سال کی حکومت لے لیں۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ آپ کی توجہ ملکی معیشت پر ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن کچھ سیاسی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ "یہ آج مشکل ضرور ہے لیکن معیشت پر بات کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہاں جمہوریت، حاکمیت اور وفاقیت کا سوال بھی موجود ہے جنہیں ہمیں ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یہ فیصلہ ان تمام سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔"
یاد رہے کہ چند ماہ قبل سینیئر صحافی افتخار احمد نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے اسی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ عمران خان نیب کورٹس کے نام پر سینکڑوں نئی بھرتیاں کرنے جا رہے ہیں، ان کا مقصد 2021 کے آخر یا 2022 کے اوائل میں تمام اپوزیشن قیادت کو نااہل کروا کر اگلا الیکشن کروانے کا ہے۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تمام نااہلیاں کروانے کے بعد انتخابات 2022 میں ہی ہو جائیں گے کیونکہ عمران خان سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریفرنس کے ذریعے نکلوانے میں ناکام ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر الیکشن مقررہ وقت پر ہوئے تو قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن چکے ہوں گے اور وہ شاید وسیع پیمانے پر دھاندلی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔
تاہم، عمران خان گذشتہ روز آفتاب اقبال کے ساتھ انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے آرمی چیف کی پوزیشن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کیونکہ ابھی اس میں کئی ماہ باقی تھے۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں میں وہ متعدد مرتبہ اس بات کا شکوہ بھی کر چکے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ رات کو 12 بجے کیوں کھولی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 9 اپریل 2022 کی رات بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس لئے کھولا گیا تھا کہ اگر عمران خان عدم اعتماد کے موقع پر آرمی چیف کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو عدالتی فیصلے کے ذریعے اس حکمنامے کے اثر کو زائل کر دیا جائے۔
بی بی سی نے لکھا تھا کہ "بتایا گیا کہ ہائیکورٹ (میں) ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے ’ممکنہ‘ نوٹیفیکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا
اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے لہٰذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ درخواست تیار تو کر لی گئی لیکن اس میں بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے نوٹیفیکیشن نمبر کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ وزیراعظم کی خواہش کے باوجود یہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہو سکا اور یوں اس پیٹشن پر سماعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔"