فاتح این آر او شہباز شریف کیا وزیراعظم بن پائیں گے؟

فاتح این آر او شہباز شریف کیا وزیراعظم بن پائیں گے؟
جس کو بہتر ڈیل ملی ہے، یا بہتر این آر او ملا ہے، وہ لندن میں بیٹھے ہوئے گڈ کوپ ہیں۔ گڈ کوپ کے سامنے دو چیلنجز تھے، پہلا بڑے بھائی اور بھانجی کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں، جنرل ضیا والی اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ہی ٹھیک تھی، اور پرانی تنخواہ پر کام کرنے میں ہی سب کا فائدہ ہے، ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے شریف فیملی کو نقصان ہوا ہے۔ آپ لوگ آرام کریں اور مجھے معاملات دیکھنے دیں۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ غُصہ تھوکیں، ہم حاضر ہیں۔ عمران خان نااہل، نالائق اور احمق ہے، اس کی ناکامی آپ کی بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ ہم پر اعتماد کریں، ہم آپ کا کام کریں گے۔ بھائی جان کو بھی میں نے منا لیا ہے، وہ بھی خاموش رہیں گے۔ مریم بھی ٹوئٹر پر کچھ نہیں لکھیں گی۔ آپ بے فکر رہیں۔



بظاہر لگتا ہے کہ گڈ کوپ نے دونوں سائیڈز کو قائل کر لیا ہے، اور وہ فاتح این آر او بن کر ابھرے ہیں۔ اگرچہ اس کی قیمت انہیں اپنے ووٹرز کی ناراضگی کی صورت میں اٹھانا پڑی ہے۔ لیکن انہیں اس کی کوئی خاص فکر نہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار تمام دکھوں کا مداوا ہے۔ اب انہوں نے لندن میں کاؤ بوائے ہیٹ پہنی ہوئی ہے اور وہ تبدیلی کے لئے تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے ناراض ریوڑ کو اپنی باڑ میں لانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انتظار ہے، اب ان ہاؤس چینج کے موسم کا۔ جب ہوا، ٖفضا سازگار ہو، اور وزارت عظمیٰ کا تاج عمران خان کے سر سے اتار کر خادم اعلیٰ کے سر پر رکھ دیا جائے اور یوں ان ہاؤس چینج کے ذریعے وزارت عظمیٰ کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو۔

مسلم لیگ کے صدر نے گذشتہ روز ایون فیلڈ فلیٹس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے توجہ ہٹا کر پی ٹی آئی حکومت کی معیشت اور گورننس کے شعبوں میں غیر معمولی ناکامی کو زیر بحث لایا جائے۔ لہٰذا اب ٹارگٹ خلائی مخلوق، یا محکمہ زراعت نہیں بلکہ عمران خان اور اُس کی حکومت ہوگی۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے تحت جس اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی تھی، اب وہ نہیں ہے۔

ان ہاؤس چینج کی بات ن لیگ کے رہنما ہر جگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے بھی گذشتہ روز لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان ہاؤس چینج کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس صرف 5 ووٹوں کی اکثریت ہے، حکومت کے خلاف ان ہاؤس تبدیلی بہت ہی آسان ہے، چاہتے ہیں ان ہاؤس تبدیلی ووٹ کے ذریعے آئے۔



نجم سیٹھی درست فرما رہے ہیں کہ جیتا شہباز شریف ہی ہے۔ مگر ہمارے نزدیک چونکہ سیاسی بساط پر فیصلہ کن فتح ان ہاؤس چینج کے بعد وزارت عظمیٰ ہے لہذا ابھی مکمل فتح نہیں ملی۔ ٹھیک ہے شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے لئے کچھ ریلیف اور سپیس لی ہے، لیکن اب بھی ان ہاؤس چینج کی صورت میں وزارت عظمیٰ کا تاج پہننے میں کئی کٹھن مراحل ہیں۔ مثلاً مسلم لیگ ن پارلیمنٹ میں سب سے بڑی اپوزیشن ہے، مگر وہ اکیلی اپوزیشن نہیں ہے۔ پارلیمینٹ میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی آرمی ایکٹ بل پر ن لیگ کی غیرمشروط حمایت اور سولو فلائٹ پر برہمی کا اظہار کر رہی ہے۔ موجودہ حالات میں وہ کسی صورت شہاز شریف کو اس اسمبلی سے وزیراعظم قبول نہیں کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت اپنی طاقت کا اظہار آزادی مارچ اور دھرنے میں کر چکی ہے، وہ بھی ن لیگ سے مایوسی کا اظہار کر چکی ہے، اور اُس نے دھرنے کے دوران جب شہباز شریف خود کو عمران خان کے متبادل وزیراعظم کے طور پر پیش کر رہے تھے، اُسی وقت خبردار کیا تھا کہ شہباز شریف صاحب کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلا دھرنا ہمیں آپ کے خلاف کرنا پڑے۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ مریم نواز اور پارٹی کب تک شہباز شریف کو ڈرائیونگ سیٹ پر برداشت کرتی ہے۔

اس کے ساتھ اگر شہباز شریف خلائی مخلوق کی مدد سے تحریک انصاف کے ووٹ توڑ کر ان کی حمایت وزارت عظمیٰ کے لئے حاصل کر بھی لیتے ہیں، پھر بھی ہمارے خیال میں تحریک انصاف کی باقیات پارلیمینٹ کے اندر اور پارلیمینٹ سے باہر رہ جائیں گی، جو کہ شہباز شریف کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ ساتھ ہی اتحادیوں کی بلیک میلنگ گڈ کوپ کی وہ حالت کر دے گی جو اس وقت عمران خان کی ہوئی پڑی ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں ان ہاؤس چینج کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں کو متفقہ وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کے نام پر ایک پیج پر لانا مشکل مرحلہ ہوگا، اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو سلیکیٹڈ حکومت کے بعد ان ہاؤس چینج کا مقدر بھی مکمل ناکامی ہی ہوگا۔

سلیکیٹڈ وزیراعظم کے پیدا کردہ مسائل کا حل ایک اور سلیکیٹڈ وزیراعظم نہیں ہوگا، بلکہ فریش انتخابات کے ذریعے حقیقی عوامی  مینڈیٹ ہی سیاسی، اقتصادی اور خارجی مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔



چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور اُن کی پارٹی سلیکٹڈ وزیر اعظم کوماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اس ملک کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں اور ان کٹھ پتلیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس لئے ایک کٹھ پتلی کے بعد دوسری کٹھ پتلی قبول نہیں ہوگی۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کے بعد دوسرا سلیکٹڈ وزیر اعظم قبول نہیں ہوگا۔