صاحب !مجھے میری مزدوری دلوا دیں

صاحب !مجھے میری مزدوری دلوا دیں
جی صاحب ! بڑے آدمی ہیں آپ، عرضی پڑھنے والوں میں کوئی بڑا وکیل تو کوئی بڑا سیاستدان ہو گا، کسی کے پاس قلم ہو گی تو کسی کے پاس خاندانی گدی، کوئی ویسے ہی خدا ترس ہو گا، صاحب! اگر کسی کی گردن میں رعونیت کا سریا ہے، تو بھی بابو تھوڑا سا میری آہ و زاری پر دھیان کر دو۔

بابو،میں نے نا! پندرہ برس مزدوری کی، ہوا تو معاہدہ تھا جی کہ مجھے عزت، مان اور گھر ملے گا اور مجھے وہ گھر سنبھالنا ہو گا، سجانا ہو گا، کسی کے ساتھ مل کر ایک نئی نسل کو پروان چڑھانا ہو گا۔ اس سارے سفر کے دکھ سکھ اکٹھے جھیلیں گے۔ جو ہو گا سانجھا ہو گا۔ چاہے کام ہو، چاہے عزت، چاہے گھر ہو، چاہے مان اب اکٹھا ہو گا۔

مگر ہوا کیا میرے ساتھ ، عزت کے بدلے تذلیل ملی۔ گھر کے کام کے بدلے طعن و تشعن، اولاد کہلائی۔ باپ کی مگر پلی بھی میرے خون پر اور بڑھی بھی صرف میرے آرام کا صدقہ اور قربانی لیکر۔

مجھے اگر کچھ ملا تو وہ دو وقت کی روٹی اور سال کے کچھ جوڑی کپڑے، بدلے میں مجھے جس شخص کا ساتھ دینا تھا، اس کے سارے گھر والوں کے لیے پکانے سے لیکر ان کے ہر حکم کی تعمیل کرنی تھی۔ عزت دے کر، ان کی مرضی کے مطابق کام کو نہ کرنے پر طنز۔ کام کے وقت کے لیے نہ گھنٹے متعین، نہ ہی کبھی چھٹی ملی بلکہ جب سارے گھر کو چھٹی ہوئی تو مجھے اضافی کام پکڑا دیا گیا۔

عید شب برات تو کیا، بیماری میں بھی بس کام میں تھوڑی کمی کو ہی احسان عظیم کہا گیا۔ جس شخص کی مجھے عزت کرنے کا کہا گیا تھا اسی نے بے عزتی کی انتہا کی، اگر میں اس کی عزت تھی تو مجھے سارے گھر کے سامنے گالی دیتے وہ بے عزت کیوں نہ ہوا؟ کام بھی کوئی لکھا نہ گیا تھا، کھانا پکانے سے لیکر گھر میں بیمار کی تیمارداری تک، بچوں کو پڑھانے سے لیکر جھوٹے برتن دھونے تک سبھی تو کیا۔ نہ دن میرا نہ رات کو کسی حکم کی تعمیل سے انکار کی اجازت۔ میں نے یہ سب کیا اور پوری ایمانداری سے کیا۔

مگر آج جب میں گالی کھا کر تھک گئی ہوں، آج جب اپنی عزت نفس کا مزید قتل کرنے سے روکنا چاہا آج جب میں نے کہا کہ معاہدے میں جو عزت، مان تھا، اپنے گھر کا جو خواب دکھایا گیا تھا وہ نہیں پورا کیا گیا تو مجھے مزید نہیں کرنا یہ سب۔ تو مجھے کہا جا رہا ہے تو ٹھیک ہے وہ رہا دروازہ اور جاؤ۔

ہاں صاحب ! ساتھ کے ساتھ تو کبھی کچھ ہاتھ پر رکھا نا مگر آج جب میں جا رہی ہوں تو بھی خالی ہاتھ۔

آپ کو زیادتی نہیں لگتی یہ صاحب! میں نے اتنے سالوں میں کیا کمایا، اگر مجھے کہا گیا تھا تم گھر رہو اور اس کے اندر کا سب کام کرو اور میں باہر رہتا ہوں اور باہر کا سب کام کرتا ہوں۔ یہ بات تو دونوں نے باہمی رضامندی سے مانی تھی تو آج جب تعلق ختم ہوا ہے تو میرا بنایا، سجایا گھر تو اس کا ہے مگر اس کی کمائی میں سے مجھے کیا ملا، جب میرے بجائے گھر میں اسے آرام سکون ملا، باہر جا کر کمانے کو طاقت ملی تو اس کے کمائے میں سے میرا کیا حصہ ہے ؟میرا حق بس روٹی کے ان نوالوں اور کپڑے کے کچھ جوڑوں سے ہی پورا ہو گیا ہے۔ میں نے ان 15 سالوں میں جو کمایا سب آج یہاں چھوڑ کے جاؤں تو اس نے ان برسوں میں جو کمایا ہے اس پر میرا حق کیوں نہیں ہے؟

مذہب اور معاشرہ کہتا ہے گھر اور بچے باپ کے ہیں۔ تو اس اعتماد اور معاہدے کا کیاجس پر یقین کر کے میں نے گھر میں رہنےکی سوچی، سالوں بعد اگر مرد علیحدگی کا سوچے تو تین لفظ بولے اور نئی زندگی شروع کر لے مگر عورت اگر ایسا کچھ سوچے تو خالی ہاتھ اور ذمہ داری کا بوجھ ۔

کبھی سوچا زندگی کے بہترین دس، بارہ سال ایک گھر کو بنانے کی کوشش کے بعد اگر کوئی عورت ناکام ہو کر اس گھر سے نکلنے کا سوچے تو یہ معاشرہ اسے کیا دیتا ہے، حتی کہ وہ پڑھی لکھی بھی ہو تو اتنے سالوں بعد تعلیم سے دور، بنا تجربے کے جب وہ جاب مارکیٹ میں جاتی ہے تو تجربہ سے لیس تو کہیں نئے آنے والے بچے جو آج کے ہر بنیادی ہنر سے آشنا ہوں اسے کھانے کے لیے تیار۔

اس نے گھر میں جو محنت صَرف کی اس کے بدلے کچھ نہیں ملا مگر اس گھر سے مکمل بے فکر ہو کر مرد نے جو کمایا اس کا ایک روپیہ بھی اس عورت پر حرام۔

رہی سہی کسر والدین اس وقت پوری کر دیتے ہیں جب نکاح نامے پر ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے، ایک مناسب حق مہر لکھتے شرفاء کی شرافت کیوں کم ہو رہی ہوتی ہے اس لیے کہ عورت خالی ہاتھ اس گھر میں جو بھی ہو رہا ہو اسے سہنے پر مجبور رہے۔

اگر مرد رشتے سے نکلے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، عورت چاہے خود جاۓ چاہے مرد نکالے بالکل خالی ہاتھ، ایک برے رشتے میں رہنے والی عورت کے لیے دو ہی راستے کیوں کہ یا تو عزت نفس کچل کر برا رشتہ نبھاتے رہو یا سالوں بعد خالی ہاتھ ہو کر معیشت کی جنگ لڑنے کو تیار ۔

غربت یا ذلت یہی دو راستے کیوں؟ کسی رشتے کو باوقار اور دونوں کے ہی لیے مناسب طریقے سے ختم کیوں نہیں کیا جا سکتا، آج تک ہر بارے میں بات ہوئی کوئی بھی ایک آواز alimony laws کے بارے میں کیوں نہیں اٹھی، کیوں کہ عورت رشتہ ختم کرے تو اس کی سزا ضروری ہے، اس نے سوچا کیوں کہ میں ایک دن کہہ سکتی ہوں کہ اب اور برداشت نہیں ہوتا مجھے اس رشتے سےنجات چاہیے اب اس کی عمر بھر کی ریاضت کے بدلے اسے خالی ہاتھ کر دو یہی انصاف ہے میرے معاشرے کا۔

آپ جہاں ہیں، اگر سوچ رکھتے ہیں تو سوچیے ضرور اس مزدور کے بارے جس نے چوبیس گھنٹے مزدوری کی، اپنا ہر حق آپ کے پاؤں تلے رکھا اور آج جاتے ہوۓ خالی ہاتھ ہے، اس کی مزدوری اس کو دلوانے کے لیے کچھ تو کریں ایک آواز ہی سہی ۔

اس کے لیے واحد راستہ غربت یا ذلت نہیں ہونا چاہیے ایک نئی زندگی پر حق بھی تو ہو سکتا ہے۔ یہ حق اسے دلوا دیں صاحب!